سیاسی سسپنس تھرلر اور سکرپٹ رائیٹرز

ہفتہ 29 اپریل 2023
author image

سرفراز راجہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جو آپ سوچ رہے ہوں ویسا بالکل نہ ہو اور جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو وہ ہوجائے، سسپنس تھرلز فلموں کی خاصیت یہی ہوتی ہے کہ یہ ابتدا سے ہی دیکھنے والوں کو جکڑ لیتی ہیں۔ کسی واقعہ کے تانے بانے جوڑنے میں فلم اختتام تک کب پہنچتی ہے وقت گزرنے کا علم ہی نہیں ہوتا، رائیٹر کہانی کے ہر اگلے سین میں دیکھنے والوں کی سوچ کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، جیسا ناظرین سمجھ رہے ہوتے ہیں سب اس کے برخلاف ہوتا چلا جاتا ہے اور اختتام میں سب کچھ اندازوں کے برعکس کرنا ہی سکرپٹ رائیٹر اور فلم کی کامیابی میں اہم ثابت ہوتا ہے۔ جس کے لیے کبھی سب سے معصوم دکھائے جانے والے کردار کو کہانی کا اصل محور یا خود تفتیش کار کو ہی مجرم ثابت کردیا جاتا ہے۔

پاکستان کی سیاست کاجائزہ لیں تو یہ بھی کسی سسپنس تھرلر سے کم نہیں۔ زیادہ پیچھے نہ جائیں اسی صدی میں رہیں، پرویز مشرف نے 2002 کے انتخابات کرائے تو ان کی حمایتی جماعت مسلم لیگ ق کو سادہ اکثریت نہ مل سکی، سب دوسری جماعتوں کو ملانے کی جمع تفریق میں لگے تھے کہ اچانک ایک نیا گروپ پیٹریاٹ کے نام سے سامنے آگیا اور نمبر پورے کرلئے گئے، وزرات عظمی کے لئے بڑے بڑے نام زیر بحث رہے لیکن اچانک قرعہ فعال میر ظفر اللہ جمالی کے نام نکل آیا جو دوڑ میں شامل ہی نہ تھے۔

جمالی کی اچانک رخصتی چوہدری شجاعت کی ڈیڑھ ماہ کی وزرات عظمی جیسے حیران کن ٹوئسٹ بھی کہانی میں آئے۔ ایسا ماحول بھی بنا کہ طویل عرصے تک حکمرانی کے خواب دیکھنے والے پرویز مشرف کو اچانک صدارت چھوڑنا پڑی۔ بے نظیربھٹو کی شہادت، آصف علی زرداری کی اچانک انٹری پھر صدرات کا عہدہ، پھر آج گئی کل گئی کرتے حکومت کے پانچ سال پورے ہوجانا، ہر جگہ اندازے لگانے اور نتیجے اخذ کرنے والے غلط ثابت ہوتے رہے۔

نواز شریف کا تیسرا اقتدار، عمران خان اور طاہر القادر ی کے دھرنے، قربانی سے پہلے قربانی، کچھ بھی تو ایسا نہ ہوا جو سوچا جارہا تھا۔ پھر 2016 میں جب سب کچھ حکومت کے قابو میں آچکا تھا، یہاں تک کہ اگلے انتخابات میں بھی ن لیگ کی کامیابی کی پشگوئیاں کی جانے لگی تھیں، کہانی میں پانامہ لیکس کی صورت میں نیا ٹوسٹ آگیا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا اور مزید پانچ سال حکومت کرنے کا خواب تو دور پارٹی کی بقا بھی ایک مسئلہ بن گیا۔

عمران خان کا حکومت میں آنا کہانی کا کوئی ٹوسٹ نہیں تھا لیکن اس کے بعد تو ناظرین کو ہرسین میں نیا دھچکا لگا۔

جب آئے گا عمران۔۔۔ کے بعد دکھائے جانے والے خواب جب ایک ایک کر کے یوٹرنز کی نذر ہونے لگے اور کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی امید لگانے والوں کو جب اپنی نوکریاں اور گھر بچانے کی فکر لگی تو سیاسی منظر نامے پر پھر اگر مگر شروع ہوگیا۔

اور بائیس سال کی جدوجہد کے بعد برسر اقتدار آنے والے عمران خان کے اقتدار کے بائیس ماہ بعد ہی ان کے جانے کی باتیں ہونے لگیں۔ اور اگلے بارہ ماہ آج گیا، کل گیا، جائے گا ؟ نہیں جائے گا، کی بحث میں گزر گئے۔ اور پھر کیوں گیا، کس نے نکالا ؟ کی بحث اور بیانیہ چلا، اوراگلے بارہ ماہ لانگ مارچ کے سیزن، احتجاج کی تاریخیں اور چھتیس گھنٹے، بہتر گھنٹے کو اہم قرار دیتے ہوئے گزر گئے، پھر اسمبلیاں ٹوٹیں گی یا نہیں اور اب الیکشن ہوں گے یا نہیں، چار سالوں میں ہر سال کو الیکشن کا سال قرار دینے والے، پانچویں سال جو کہ اصل میں الیکشن کا سال ہوتا ہے، الیکشن نہ ہونے کی پیشگوئیوں میں گھر گیا۔

عوام بھی پورے دھیان سے یہ سیاسی پکچر دیکھ رہے ہیں کہ شاید وہ سمجھ پائیں کہ آگے کیا ہو گا لیکن ایسا ہوجائے تو سسپنس کیسا اور تھرل کہاں کا۔ فلم میں تو کہانی، کردار، ڈائیلاگ سب پہلے سے تیار ہوتا ہے عکس بندی ہوچکی ہوتی ہے۔ پردہ سکرین پر آنے کے بعد اس میں تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔

لیکن سیاسی پکچر میں سکرپٹ لکھ بھی دیا جائے تو عکس بندی باقی رہتی ہے اور آخری لمحات تک اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ کسی بھی وقت صورتحال کے مطابق کہانی میں تبدیلی کردی جائے اور کوئی ایسا ٹوسٹ آجائے جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو، ہماری سیاست کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کا سکرپٹ رائیٹر کوئی ایک نہیں یہاں ایک سے زیادہ سکرپٹ رائیٹرز ہیں جو اپنی مرضی، سہولت اور فائدے کے مطابق سکرپٹ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سب کا اپنا اپنا سکرپٹ ہے اور رائیٹرز کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا سکرپٹ سٹوری کا حصہ بن پائے گا یا نہیں، اور اسی وجہ سے ہماری سیاسی فلم کا تھرل ایسا ہوتا ہے جس کا قبل از وقت درست اندازہ لگا لینا کسی کے لئَے ممکن نہیں۔ یہاں تک کہ سکرپٹ رائیٹرز کے لیے بھی نہیں۔

سسپنس تھرلر فلموں کے اختتام کو انتہائی حیران کن اور ناقابل تصور بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ دیکھنے والوں کا دھیان ادھر ادھر لگا کر اصل کردار کی جانب ان کی توجہ آنے ہی نہیں دی جاتی، اکثر فلم کے اختتام پر اچانک کوئی معمولی کردارغیر معمولی اہمیت اختیار کرتے ہوئے تمام تر توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ اس لیے دل تھام کے توجہ کے ساتھ سیاسی کہانی کو دیکھتے جائیں ضروری نہیں کہ جو سب سوچ رہے ہیں ویسا ہی ہو۔

اور ہاں سسپنس تھرلز میں کئی بار جب بظاہر کہانی ختم ہوجاتی ہے تو کوئی نیا ٹوسٹ نشستوں سے اٹھنے والوں کو دوبارہ بیٹھنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اس لیے کہانی کو اس وقت تک اختتام پذیر نہ سمجھیں جب تک پردہ سکرین پر لکھا نہ آجائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp