جناب عمران خان اور گاؤں کی عورت کا قصہ

پیر 1 مئی 2023
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کسی گاؤں میں ایک عورت اکثر شوہر سے جھگڑتی، اپنے مطالبات اس کے سامنے رکھتی، نہ ماننے کی صورت میں  میکے جانے کی دھمکی دیتی۔ بے چارہ شوہر  محلے میں تماشا لگنے کے ڈر سے بیوی کے مطالبات مان لیتا، یوں اسے چند ہفتوں کا سکون مل جاتا۔ پھر کچھ روز بعد بیوی نئے مطالبات پیش کرتی لیکن دھمکی وہی پرانی کہ میکے چلی جاؤں گی۔ اور شوہر پھر تماشا بننے سے بچنے کے لیے مطالبات تسلیم کر لیتا۔ یوں ان میاں بیوی کی زندگی کا سفر جاری رہا۔

بے چارہ شوہر روز روز کی بلیک میلنگ سے تنگ آگیا۔ ایک روز بیوی نے نئے مطالبات لے کر جھگڑا کھڑا کیا، میکے جانے کی دھمکی دی۔ شوہر اٹھا، اس نے گھر کا مرکزی دروازہ کھولا اور کہا: ’چلو جاؤ اپنے میکے دیر نہ کرو ‘

بیوی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ  شوہر ایک روز نیا روپ دکھائے گا، وہ ششدر رہ گئی۔ میکے جانے کی دھمکی محض ایک دھمکی ہی تھی، اس سے زیادہ کچھ نہ تھی، میکے جانا، وہاں رہنا کون سا آسان ہوتا ہے بھلا؟ اس کا خیال تھا کہ زندگی یونہی دھمکی کی بنیاد پر گزرتی رہے گی لیکن آج ’بندے‘ کا دماغ نجانے کیوں خراب ہوگیا، ہو نہ ہو کسی نے اسے کوئی پٹی پڑھائی ہوگی۔ خیر جو ہونا تھا، ہوچکا تھا۔ شوہر دروازہ چوپٹ کھول کے کھڑا تھا، بار بار کہہ رہا تھا ’اب کیوں بیٹھی ہو جاؤ ناں اپنے  میکے؟‘

جب بیوی کو یقین ہوگیا کہ اب شوہر نہیں ٹلنے والا، وہ آنسو بہاتے ہوئے اٹھی، 4 کپڑوں کی گٹھری بنائی، سر پر دھری اور گھر سے باہر کا رخ کرنے لگی۔  امید کا ایک چراغ اب بھی جل رہا تھا کہ میں دروازے پر پہنچوں گی اور میرا ’بندہ‘ مجھے ایک تنبیہ کرکے گھر پر رہنے کا موقع فراہم کردے گا۔ تاہم اس کے ’بندے‘ نے ایسا کچھ بھی نہ کیا۔

دہلیز پار کرتے پاؤں من من کے بھاری ہو رہے تھے لیکن نکلنا ہی پڑا۔ ساتھ ہی شوہر نے دروازہ کھٹاک سے بند کر دیا۔ بیوی نے ایک نظر بند دروازہ کو دیکھا اور پھر  بہ آواز بلند کہا ’میرے بغیر تم رہ نہیں سکو گے، بہت پچھتاؤ گے ‘۔

تاہم گھر کے اندر سے کوئی آواز باہر نہ آئی۔

بیوی گاؤں سے نکلی اور سرسبز و شاداب کھیتوں کے درمیان ایک پگڈنڈی پر  چل پڑی۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال کوندا۔ وہ تیزی سے اُس چراگاہ میں پہنچ گئی جہاں ان کی گائیں اور بکریاں چر رہی تھیں۔ وہ مویشیوں کے قریب ٹاہلی کے سائے تلے بیٹھ گئی، بہت بار میکہ ذہن میں آیا، اس نے آنکھیں میچ لیں، لیکن  وہاں کے دروازے بھی بند ہی نظر آئے۔

سورج ڈوبنے کو ہوا تو مویشی گھر کی طرف چل پڑے۔ خاتون نے ایک گائے کی دم پکڑ لی اور  مویشیوں کے ساتھ، نظریں جھکائے گھر کے اندر داخل ہوگئی۔

شوہر نے بیوی کو گھر میں داخل ہوتے دیکھا تو معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے پوچھا ’میکے کیوں نہیں گئی، جس کی مجھے روز دھمکیاں دیتی تھی؟‘

بیوی کہنے لگی: ’میں میکے جا رہی تھی لیکن اس گائے نے مجھے روک لیا اور اپنے ساتھ ہی گھر لے آئی‘۔

شوہر نے یہ سنا تو زور کا قہقہہ لگایا، ادھر گائے بھی زور سے ڈکرائی جیسے وہ بھی کہہ رہی ہو کہ ’جاؤ ناں میکے اب‘۔ خاتون کو شوہر کا قہقہہ اور گائے کا ڈکرانا زہر آلود طعنہ لگا۔ تاہم وہ خاموش رہی بلکہ اپنی زبان کو دانتوں کے بیچ زور سے دبا لیا کہ کہیں پھر میکے جانے کی دھمکی منہ سے نکل نہ جائے۔

یہ قصہ پچھلے 8، 9 برس کے دوران بارہا ذہن میں تازہ ہوا۔ پہلی بار، جب تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان ساتھیوں سمیت 2014ء میں اسمبلیوں سے مستعفی ہوئے۔ پھر چند ماہ بعد، نگاہیں نیچی کرکے واپس اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔ وہ اس وقت کی نواز شریف کی حکومت ختم کروانے کے لیے اسمبلیوں سے مستعفی ہوئے تھے لیکن میاں نواز شریف نے ان کے استعفوں کو پرکاہ برابر اہمیت نہ دی، استعفے اسپیکر ایاز صادق کی میز پر دھرے رہے۔ پھر جرنیلوں اور ججز نے مل جل کر نواز شریف حکومت ختم کی، اس کے باوجود عام انتخابات 5 سال مکمل ہونے پر ہی ہوئے۔ جب عمران خان اور ان کے ساتھی واپس قومی اسمبلی پہنچے، مخالف ارکان اسمبلی نے جس انداز میں ہوٹنگ کی، اسے  دیکھ کر مجھے گائے کی دم پکڑے عورت کی گھر واپسی کا منظر  یاد آگیا۔ قومی اسمبلی کے ہال میں بھی ویسے ہی طعن بھرے قہقہے لگ رہے تھے جیسے اُس عورت کا شوہر قہقہے لگا رہا تھا۔

یہ قصہ 2022ء میں بھی تازہ ہوا، جب جناب عمران خان اور ان کے ساتھی ایک بار پھر اسمبلیوں سے مستعفی ہوگئے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے استعفوں سے ملک بدترین بحران میں مبتلا ہو جائے گا، شہباز شریف حکومت ختم ہوجائے گی، اسٹیبلشمنٹ منت ترلا کرکے خان صاحب کو واپس ایوان اقتدار میں لائے گی لیکن کسی نے استعفوں کی پروا نہ کی، بلکہ اسپیکر راجا پرویز اشرف نے استعفے قبول کرنا شروع کردیے۔ اس پر عمران خان اور ان کے ساتھی ششدر رہ گئے۔ نتیجتاً انہوں نے استعفے قبول نہ کرنے کی درخواستیں دینا شروع کر دیں، اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا، استعفے منظور ہوچکے۔

خان صاحب اب بھی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی بھی طرح سے منظور ہونے والے استعفے نامنظور ہو جائیں، پھر ان کی پارٹی کا قائد حزب اختلاف ہو، عام انتخابات کا اعلان ہو، ان کی مشاورت سے نگران حکومت قائم ہو، اس دوران وہ قدم قدم پر شہباز شریف حکومت کو زچ کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔

پھر 20 یا 40 لاکھ لوگوں کا لانگ مارچ لے کر پی ڈی ایم حکومت گرانے کا منصوبہ بنایا گیا، بُرا ہو تحریک انصاف کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کا، بندے ہی اکٹھے نہ کرسکے۔ چنانچہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیاں توڑ کر شہباز شریف حکومت ختم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ آج کل عمران خان ٹوٹی ہوئی اسمبلیاں پھر سے جوڑنے کے لیے عدلیہ سے مدد مانگ رہے ہیں، درخواستیں دے رہے ہیں کہ براہ کرم اسمبلیاں بحال کردیں۔ اور پی ڈی ایم والے زور زور سے قہقہے لگا رہے ہیں اس شوہر کی طرح جس کی بیوی گائے کی دم پکڑ کر گھر واپس آئی تھی۔

ویسے گاؤں کی عورت کا قصہ پرسوں بھی یاد آیا، جب میں نے اسلام آباد کی شاہراہ دستور کے کنارے 3 بوڑھوں کو چپ چاپ بیٹھے دیکھا، ورنہ وہ روز بہت بولتے تھے، اچھل اچھل کر قریب بیٹھے کچھ لوگوں کو دھمکیاں دیتے تھے لیکن 27 اپریل 2023ء (بروز جمعرات) کو ان میں سے 2 بوڑھے بالکل ساکت بیٹھے تھے، تیسرا بڑا بوڑھا تحمل اور مکالمے کی اہمیت بیان کر رہا تھا۔ مجھے ایسے لگا کہ عورت ایک بار پھر گائے کی دم پکڑ کر گھر میں داخل ہو رہی ہے اور اس کا شوہر قہقہے لگا رہا ہے، گائے بھی ڈکراتے ہوئے نصیحت کر رہی ہے کہ ’انسانو! سوچ سمجھ کر بولا کرو، نتائج و عواقب پر خوب غور کرکے قدم اٹھایا کرو۔ زندگی دھمکیوں اور بلیک میلنگ سے نہیں گزرتی، زندگی میں سیاہ اور سفید ہی نہیں ہوتا، کچھ اس کے درمیان بھی بہت کچھ ہوتا ہے‘۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp