صدر ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب (ترمیمی) بل، 2023 پارلیمنٹ کو دوبارہ غور کرنے کے لیے واپس بھجوا دیا۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے بل آئین کے آرٹیکل 75 ایک بی کے تحت پارلیمان کو واپس بھجوایا۔
صدر علوی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں پہلے کی گئی ترامیم سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ بل اور وزیرِاعظم کی ایڈوائس میں اس پہلو کا حوالہ نہیں دیا گیا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نیب (ترمیمی) بل، 2023 پارلیمنٹ کو دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس بھجوا دیا
صدر مملکت نے بل آئین کے آرٹیکل 75 ایک بی کے تحت پارلیمان کو واپس بھجوایا
قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں پہلے کی گئی ترامیم سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں ، صدر مملکت
— The President of Pakistan (@PresOfPakistan) April 30, 2023
مزید یہ کہ ’ایک زیر التواء معاملے کے اثرات پر غور کئے بغیر قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں مزید ترامیم پر دوبارہ غور کیا جانا چاہیے، وزیرِاعظم نے آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت بل توثیق کے لیے صدر مملکت کو بھجوایا تھا۔
قومی اسمبلی نے قومی احتساب (ترمیمی) بل 2023ء کی منظوری کب دی؟
وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے 14 اپریل کو تحریک پیش کی کہ قومی احتساب (ترمیمی) بل 2023 ء قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں فی الفور زیرغور لایا جائے۔ ایوان سے تحریک کی منظوری کی بعد سپیکر قومی اسمبلی نے بل کی تمام شقوں کی ایوان سے منظوری حاصل کی جس کے بعد وزیرقانون اعظم نذر تارڑ نے تحریک پیش کی کہ قومی احتساب (ترمیمی) بل 2023ء منظور کیا جائے۔ قومی اسمبلی نے بل کی منظوری دے دی۔
سینیٹ نے قومی احتساب (ترمیمی) بل 2023ء کی منظوری کب دی؟
’قومی احتساب (ترمیمی) بل 2023‘14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا تھا۔ وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے مذکورہ بل 20 اپریل کو سینیٹ میں پیش کیا تھا۔ اس دوران پی ٹی آئی سینیٹرز کی جانب سے شدید احتجاج دیکھنے میں آیا۔ اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود ایوان بالا نے بل کثرتِ رائے سے منظور کر لیا تھا۔
’قومی احتساب (ترمیمی) بل 2023‘ کے اہم خدو خال
’قومی احتساب (ترمیمی) بل 2023‘ بل نہ صرف چیئرمین نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز متعلقہ ایجنسی، اتھارٹی یا محکمے کو منتقل کرنے کا اختیار دیتا ہے بلکہ ایسی زیر التوا انکوائریوں اور تحقیقات کو بند کرنے کا بھی اختیار دیتا ہے جو چیئرمین نیب کی نظر میں کیس نہیں بنتا۔
نیب آرڈیننس کے سیکشن 4 میں شامل ایک شق کے تحت جب چیئرمین نیب کا عہدہ خالی ہو جائے یا چیئرمین غیر حاضر ہو یا اپنے دفتر کے فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہو تو ان کی جگہ ڈپٹی چیئرمین خدمات سرانجام دے گا اور ڈپٹی چیئرمین کی غیر موجودگی میں وفاقی حکومت نیب کے سینئر افسران میں سے کسی ایک کو قائم مقام چیئرمین مقرر کرے گی۔
بل کے اغراض و مقاصد میں لکھا گیا کہ ’قومی احتساب آرڈیننس اور قومی احتساب (دوسری ترمیم) ایکٹ 2022 میں کی گئی حالیہ ترامیم کی وجہ سے ان کیسز کو احتساب عدالتوں سے دیگر عدالتوں، ٹربیونلز اور فورمز میں منتقل کرنے میں کچھ قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں جو نیب آرڈیننس کے دائرہ کار یا دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔
پراسیکیوٹر جنرل اکاؤنٹیبلٹی کے اقدام اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے تعاون کے بعد نیب آرڈیننس میں کچھ مزید ترامیم فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ احتساب عدالتوں کو مذکورہ مقدمات کی منتقلی کے لیے قانونی تحفظ فراہم کیا جا سکے‘۔
اپوزیشن نے بل کو این آر 2 کیوں قرار دیا؟
اپوزیشن سینیٹرز نے الزام عائد کیا کہ ’نیب قانون میں ترامیم ذاتی مفادات پر مبنی ہیں اور یہ نیب کو غیرمؤثر بنا دیں گی۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن نے ایجنڈے کی کاپیاں بھی پھاڑ دیں جو چاروں طرف بکھری نظر آئیں۔
وزیر قانون کی جانب سے نیب قانون میں ترمیم کا بل ایوان میں پیش کیے جانے کے چند لمحوں بعد قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے الزام عائد کیا تھا کہ ’اس سے قبل حکومت نے جلد بازی میں نیب ترمیمی قانون پاس کروایا تھا، درحقیقت حکومت نے اپنے کیسز معاف کروانے کے لیے قانون سازی کی ہے‘۔
ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ ’ہم نے اس وقت بل پر ہاؤس ڈسکشن منعقد کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا تاکہ ایک بہتر قانون بنایا جا سکے لیکن وہ چاہتے تھے کہ ان کے 1999 سے اب تک کے کیسز کو کلیئر کرنے کے لیے اسے جلد بازی میں منظور کیا جائے اور اب ضرورت پڑنے پر وہ یہ بل لے آئے ہیں جو این آر او-2 کا پارٹ-2 ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔
ڈاکٹر شہزاد وسیم نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ نیب بل کو پہلے قومی اسمبلی سے منظور کروا کر پارلیمنٹ کو مذاق بنا رہی ہے اور اب سینیٹ کو بلڈوز کرنا چاہتی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ عدلیہ کے دائرہ اختیار کو محدود کرنے کے لیے مخصوص قانون سازی ہے جس کا مقصد صرف سیاسی مفادات کو آگے بڑھانا ہے، اسے ایوان کی قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے، بصورت دیگر انہیں اس کا پارٹ-3 بھی لانا پڑے گا‘۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے مذکورہ بل کے حوالے سے سینیٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ نیب قانون ترمیمی بل کا مقصد بڑے چور کو پارلیمنٹ میں لانا اور چھوٹے چور کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنا ہے۔
وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے بل کے بارے میں کیا وضاحت دی؟
بل پر تنقید کے ردعمل میں وزیر قانون نے کہا کہ مجوزہ قانون سازی عدالتوں کو مضبوط کرے گا اور انہیں یہ اختیار دے گی کہ وہ کیسز کو دوسرے فورمز پر بھیجیں، بجائے اس کے کہ یہ کام نیب کے چیئرمین یا ایگزیکٹو بورڈ کریں۔