مشہورآرٹسٹ پابلو پکاسو نے کہا تھا کہ آرٹ انسان کی روز مرہ زندگی سے گردوغبار ہٹا دیتا ہے۔ تاہم اکرم الورا نامی فلسطینی آرٹسٹ نے ثابت کیا ہے کہ تخلیقی صلاحیت ہو تو آرٹ ظلم، جبر کے خلاف غیرمعمولی مزاحمت پیدا کرسکتا ہے، وہ دنیا کو زیادہ بامعنی پیغام دے سکتا ہے۔
معروف عرب ٹی وی چینل ’ الجزیرہ ‘ نے ایک فلسطینی آرٹسٹ کی خبر دی ہے جو اسرائیلی فورسز کی طرف سے فلسطینیوں پر برسائے جانے والے آنسو گیس شیل اٹھاتا ہے، اور ان سے ہینڈی کرافٹس بناتا اور فرخت کرتا ہے۔
وہ ان خالی شیلوں کو پہلے بہترین انداز میں صاف کرتا ہے تاکہ ان سے تیارکردہ ہینڈی کرافٹس انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت نہ ہوں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے تیار کردہ ہینڈی کرافٹس 100 فیصد نقصانات سے پاک ہیں۔
اکرم الورا نے بتایا کہ اسے آنسو گیس کے خالی شیلوں سے ہینڈی کرافٹس بنانے کا خیال 2014 میں اس وقت آیا جب غزہ پر جنگ مسلط تھی۔ اور مغربی کنارے میں بھی ایسے ہی واقعات رونما ہو رہے تھے۔ پورے فلسطین ہی میں اسرائیلی فورسز کے ساتھ فلسطینیوں کا تصادم چل رہا تھا۔
’ایک روز آنسوگیس کا ایک خالی شیل مجھے ملا، میں اسے ایک ورکشاپ میں لے گیا۔ میں نے کچھ ایسا کرنے کا سوچا کہ اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے ظلم سے اپنے اندر پیدا ہونے والے احساسات اور غصے کو نکال باہر کروں‘۔
پھر اکرام الورا نے مختلف فلسطینی علامات اور نشانات پر مبنی ہینڈی کرافٹس بنانا شروع کردیے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس سے امید اور صبر پیدا ہوتا ہے۔
ایک فلسطینی ٹور گائیڈ مروان فرارجا کا کہنا ہے’میرے ساتھ سیاح ہوں اور میں انہیں لے کر اکرم کی دکان پر نہ لے کر جاؤں، ایسا ہو نہیں سکتا۔ کیونکہ اس کی دکان سے لوگوں کو ایک حقیقی پیغام ملتا ہے کہ ہم فلسطینی کس قدر ثابت قدم اور صابر ہیں‘۔
’ہم اپنے حقوق سے بھی خوب واقف ہیں اور زندگی سے بھی جڑے ہوئے ہیں‘۔
2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق اکرم جس مہاجرکیمپ (عایدہ کیمپ، مغربی کنارے کے شہر ’بیت اللحم‘ سے شمال کی طرف محض 1.2 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔) میں رہتا اور اسے اپنا گھر کہتا ہے، دنیا کے ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں سیکورٹی فورسز نے سب سے زیادہ آنسو گیس کے شیل برسائے۔ بہت زیادہ آنسو گیس کے سبب یہاں کے باسیوں میں دمہ، کالا موتیا، خارش اور خوف و پریشانی سمیت مختلف دیگر جسمانی و نفسیاتی بیماریاں عام ہوچکی ہیں۔