بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین پابندیوں کے باوجود روسی تیل خرید کر اپنی معیشت کو مزید بہتر بنا رہا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق پابندیوں کے بعد یورپی یونین کے رکن ممالک بھارت کے ذریعے منظور شدہ ایندھن خرید رہے ہیں جس کے بعد ہندوستان روسی تیل کو خرید کر دوبارہ فروخت کرکے بلاک کا سب سے بڑا ایندھن فراہم کرنے والا ملک بن گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یورپی یونین، جی سیون اور اتحادی ممالک نے روسی خام تیل پر پابندی اور 60 ڈالر فی بیرل قیمت کی حد مقرر کی اور بعد میں پیٹرولیم مصنوعات کی برآمدات کے لیے بھی اسی طرح کی پابندیاں عائد کیں تھیں۔

رپورٹس کے مطابق ان پابندیوں میں بھارت شامل نہیں ہوا اور اس نے روسی تیل کی خریداری میں اضافہ کر دیا اور روس سے قیمتوں میں رعایت بھی حاصل کی۔
2022 اور 2023 میں بھارتی ریفائنریز نے یومیہ 9 لاکھ 70 ہزار بیرل روسی تیل خریدا اور پابندی لاگو ہونے کے بعد سے نہ صرف بھارت روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے بلکہ ہندوستان اب یورپ کو بھی ایندھن فراہم کرنے والا سب سے بڑا سپلائر بننے کی راہ پر گامزن ہے۔
ہندوستانی پروسیسنگ پلانٹس سستے روسی تیل کو ایندھن میں تبدیل کر رہے ہیں اور اسے زیادہ قیمت پر یورپی یونین کو دوبارہ فروخت کر رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق تمام تر پابندیوں کے باوجود روس کا تیل یورپ میں واپسی کا راستہ تلاش کر رہا ہے، بھارت مغرب میں ایندھن کی فروخت کو بڑھا رہا امکان ہے کہ وہ جلد سعودی عرب کی ترسیل کو پیچھے چھوڑ دے گا۔
واضح رہے کہ ڈیزل یورپی ممالک کی معیشت کے بڑے شعبوں کی ضرورت تھا جس کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ یوکرین تنازعے سے پہلے روس سے آتا تھا۔ چونکہ یورپی یونین نے روس سے ریفائنڈ مصنوعات کو قبول کرنا بند کر دیا تھا اس لیے اسے متبادل سپلائرز سے ایندھن حاصل کرنے کی ضرورت تھی۔