دلیپ کمار کا حقیقی بھائی ’ ناصر خان ‘ پاکستان کا پہلا فلمی ہیرو

پیر 1 مئی 2023
author image

عقیل عباس جعفری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

7 اگست 1948ء کوعیدالفطر کے روز لاہورکے پربھات سنیما میں پاکستان میں تیار ہونے والی پہلی فیچر فلم ’تیری یاد‘ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے پروڈیوسر دیوان سرداری لال اور ہدایت کار داؤد چاند تھے۔ انہوں نے یہ فلم پنچولی فلمز کے بینر تلے دیوان ڈی پی سنگھا کی مدد سے محض 90 دن میں مکمل کی تھی ۔

دیوان سرداری لال ایک زیرک اور ہوشیار آدمی تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے وہ پنچولی آرٹ اسٹوڈیوز کے جنرل منیجر تھے جب کہ اس اسٹوڈیو کے مالک دل سکھ پنچولی تھے۔

قیام پاکستان کے بعد دیوان سرداری لال نے دل سکھ پنچولی کو خوفزدہ کرکے پاکستان سے بھگا دیا اور خود ان کے کاروبار کے انچارج بن گئے۔ انھوں نے مسلمان کارکنوں کو اکٹھا کیا اور فلم سازی کی ابتدا کی۔

فلم ’گنگا جمنا‘ میں ناصر خان اپنے بھائی دلیپ کمار کے مقابل نظر آئے۔

داؤد چاند 1931ء سے فلمی دنیا میں تھے۔ شروع شروع میں وہ خاموش فلموں میں اداکاری کیا کرتے تھے۔ بولتی فلموں کا دور آیا تو ہدایت کار بن گئے۔ بطور ہدایت کار ان کی پہلی فلم ’جیون کا سپنا‘ تھی جو جمنا آرٹ پروڈکشنز کلکتہ کے بینر تلے تیار ہوئی تھی۔ قیام پاکستان سے قبل ان کی ڈائریکٹ کردہ یادگار فلموں میں ’سپاہی، شانِ اسلامِ سسی پنوں، پرائے بس میں، آر سی اور ایک روز‘ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد انہیں پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ کی ہدایات دینے کا اعزاز حاصل ہوا۔ تیری یاد کے ہیرو دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی ناصر خان اور ہیروئن آشا پوسلے تھیں، جب کہ فلم کے دیگر اداکاروں میں نجمہ، سردار محمد، رانی کرن، زبیدہ، جہانگیر ، نذر اور ماسٹر غلام قادر شامل تھے۔ اس فلم کی کہانی اور مکالمے خادم محی الدین نے لکھے تھے۔ اس کی موسیقی ماسٹر عنایت علی ناتھ نے ترتیب دی تھی جب کہ اس کے نغمات قتیل شفائی اور تنویر نقوی نے تحریر کئے تھے۔ فلم کی عکاسی رضا میر نے کی تھی، تدوین کار ایم اے لطیف تھے، آڈیو گرافی  اے زیڈ بیگ نے کی تھی جبکہ پروسیسنگ کے فرائض پیارے خان اور وارث نے انجام دیئے تھے۔

ناصر خان نے 1956ء میں خوبرو اور بیباک اداکارہ بیگم پارہ سے شادی کی۔

اس فلم کے لیے کل 13 گانے ریکارڈ کیے گئے تھے تاہم فلم میں صرف 10 گانے شامل کیے گئے جنھیں منور سلطانہ، علی بخش ظہور اور آشا پوسلے نے گایا تھا۔ بدقسمتی سے ان گیتوں کے ریکارڈ نہیں بنے تھے جن کی وجہ سے یہ گیت عوام تک نہیں پہنچ سکے۔

’تیری یاد‘ بے جان کہانی، کمزور موسیقی اور فنی خامیوں کی وجہ سے بری طرح ناکام رہی۔ کہنہ مشق ہدایت کار داؤد چاند بھی اسے سنبھالا نہ دے سکے اور ہندوستان کی فلموں کے مدِ مقابل ’تیری یاد‘ نے دم توڑ دیا۔

تیری یاد کے ناکام ہونے کا سبب اس فلم کے عکاس رضا میر نے برسوں بعد ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’تیری یاد اتنی بری فلم نہیں تھی کہ لگتے ہی فلاپ ہوجاتی، لیکن دیوان سرداری لال نے تیزی سے شوٹنگ مکمل کرکے دس ہزار آٹھ سو فٹ کے رش پرنٹ آگے پیچھے جوڑ کر، بنا کسی ایڈیٹنگ کے ریلیز کر دیا۔

’تیری یاد‘ سے فلم بینوں پر کیا گزری اس کا اندازہ اس تبصرے سے لگایا جاسکتا ہے جو اس فلم کی ریلیز کے ایک ماہ بعد 7 ستمبر 1948ء کو روزنامہ امروز لاہور میں شائع ہوا۔ اس تبصرے کی آخری سطور میں لکھا گیا تھا:

’تصویر دیکھنے کے بعد ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ڈائریکٹر صاحب بہت قابل آدمی ہیں۔ وہ اپنے فن کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ نہ سمجھتے ہوتے تو اس عمدگی سے تصویر کی لغویت اور بے ہودگی کو کیسے قائم رکھتے؟ کہیں نہ کہیں لغزش کرتے اور کوئی اچھا ٹکڑا دے ڈالتے‘۔

’تیری یاد‘کے پروڈیوسر دیوان سرداری لال اور ہدایت کار داؤد چاند تھے۔

ناصر خان نے پاکستان کی ایک اور فلم ’شاہدہ‘ میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ فلم قیام پاکستان سے پہلے بننی شروع ہوئی تھی۔ ابتدا میں اس کا نام ’شفق‘ رکھا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس فلم کی عکس بندی کا دوبارہ آغاز ہوا مگر اس سے قبل کہ یہ فلم مکمل ہوتی فلم ’تیری یاد‘ نمائش پذیر ہوگئی اور یوں پاکستان کی پہلی فلم کا سہرا ’تیری یاد‘ کے سر بندھ گیا۔

’شاہدہ‘ میں ناصر خان کے مدِ مقابل شمیم بانو ہیروئن تھیں۔ یہ فلم بھی کامیاب نہ ہوسکی اور پاکستان کے پہلے فلمی ہیرو ناصر خان دل برداشتہ ہو کر بھارت چلے گئے جہاں ان کے بڑے بھائی دلیپ کمار فلمی صنعت پر راج کررہے تھے۔

ناصر خان 1924ء میں پشاور کے قصہ خوانی بازار کے ایک محلے خداداد میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ کل 13 بہن بھائی تھے جن میں ناصر خان کا نمبر چھٹا تھا۔ ناصر خان کا بچپن پشاور میں بسر ہوا۔ اسی دوران ان کے والد محمد سرور خان ممبئی چلے گئے جہاں انہوں نے کرافورڈ مارکیٹ میں پھلوں کی ایک دکان کھول لی اور جب ان کا کاروبار جم گیا تو انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو ممبئی بلالیا۔

1944ء میں ان کے بڑے بھائی یوسف خان نے فلموں کام کرنا شروع کردیا۔ ان کی پہلی فلم ’جوار بھاٹا‘ تھی جو بمبئی ٹاکیز کے بینر تلے بنائی گئی تھی ۔ بمبئی ٹاکیز کے مالک دیویکا رانی نے یوسف خان کو ’دلیپ کمار ‘کا فلمی نام دیا۔ ایک برس بعد ناصر خان نے بھی فلمی دنیا میں قدم رکھ دیا۔ ان کی پہلی فلم ’مزدور‘ تھی جس کے ہدایت کار نتن بوس تھے۔ یہ فلم 1945ء میں نمائش پذیر ہوئی لیکن کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ اس کے بعد ان کی دوسری فلم ’شہنائی‘ منظرِ عام پر آئی جس کے ہدایت کار پی ایل سنتوشی تھے۔ 1947ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اس فلم میں ان کا فلمایا ہوا گیت ’ آنا میری جان سنڈے کے سنڈے‘ بے حد مقبول ہوا۔

ناصر خان نے فلم ’شاہدہ‘ میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔

1947ء میں جب ہندوستان تقسیم ہوا تو دلیپ کمار نے ناصر خان کو پاکستان بھیجا کہ وہ وہاں جاکر پاکستانی فلمی صنعت کا جائزہ لیں۔ دلیپ کمار کا خیال تھا کہ اگر پاکستان کی نوزائیدہ فلمی صنعت کامیاب ہوتی ہے تو وہ خود بھی پاکستان منتقل ہوجائیں گے، مگر ایسا نہ ہوا اور باوجود اس کے کہ ناصر خان نے پاکستان کی دونوں ابتدائی فلموں میں مرکزی کردار ادا کیا، یہاں ان کے قدم نہ جم سکے۔

ناصر خان نے ‘تیری یاد‘ اور’ شاہدہ‘  کی ناکامی کے بعد فلم تقسیم کاری کا ایک ادارہ بیسٹ پکچرز کے نام سے قائم کیا اور بھارت کی چار فلمیں پاکستان میں ریلیز کیں جن میں فلم ’میلہ‘ کا نام سرفہرست تھا۔

1951ء کے لگ بھگ ناصر خان واپس بھارت چلے گئے جہاں انہوں نے متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی مشہور فلموں میں ’نازنین، خزانہ، نگینہ، نخرے، سوداگر، آسمان، شریمتی جی، ہنگامہ، آغوش، شیشم، خوب صورت، انعام، لال کنور، دائرہ، انگارے، سوسائٹی، جواب، چار مینار اور سمندری ڈاکو‘ کے نام سرفہرست تھے، مگر انہیں اصل شہرت ’گنگا جمنا‘ سے ملی جس میں دلیپ کمار نے ’گنگا‘ اور ناصر نے ان کے چھوٹے بھائی ’جمنا‘ کا کردار ادا کیا تھا۔ ’گنگا‘ ڈاکوؤں کا سردار تھا اور ’جمنا‘ پولیس انسپکٹر۔ اس فلم نے فرض اور محبت کی کشمکش کو بڑے خوبصورت انداز میں اجاگر کیا گیا تھا۔

ناصر خان 1924ء میں پشاور محلے خداداد میں پیدا ہوئے تھے۔

جب فلم ’گنگا جمنا‘ سنسر کے لیے پیش ہوئی تو سنسر بورڈ نے اسے پاس کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے فلم میں فحاشی اور تشدد کے پھیلاؤ کا الزام لگایا اور اسے نمائش کے لیے مسترد کر دیا، بعد ازاں ایک طویل قانونی جنگ کے بعد اس فلم کو نمائش کی اجازت ملی۔ یہ فلم 10 نومبر 1961ء کو نمائش پزیر ہوئی اور سال کی بہترین فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم نے تین فلم فیئر ایوارڈز حاصل کیے۔ اسی سال بطور ہیرو ان کی آخری فلم ’سایہ‘ ریلیز ہوئی۔ 1956ء میں انہوں نے خوبرو اور بیباک اداکارہ بیگم پارہ سے شادی کی، اس شادی میں ناصر خان کے گھر والے شریک نہ ہوئے۔ بیگم پارہ بھی اپنی روشن خیال اور بیباکی کی وجہ سے ناصر خان کے گھر والوں سے ایڈجسٹ نہ کرسکی۔

’گنگا جمنا‘ کی طویل قانونی جنگ کے بعد ناصر خان معاشی طور پر بالکل تباہ ہوچکے تھے۔ دلیپ کمار سے بھی ان کے تعلقات بہتر نہ رہے تھے۔ انہوں نے ممبئی سے کچھ فاصلے پر ایک پولٹری فارم بنایا مگر وہ یہ کاروبار بھی نہ چلاسکے اور بالآخر انہیں اپنا یہ فارم انکم ٹیکس کے بقایاجات کی ادائی کے بدلے دینا پڑ گیا۔ انہی حالات میں 3 مئی 1974ء کو ناصر خان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی آخری فلم ’بیراگ‘ تھی جو ان کی وفات کے بعد 1976ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں دلیپ کمار اور سائرہ بانو نے بھی کام کیا تھا۔ ناصر خان کی وفات کے بعد بیگم پارہ نے پاکستان میں قیام کا فیصلہ کیا۔ ان کے بہنوئی عبدالحفیظ پیرزادہ ان دنوں پاکستان کے مرکزی وزیر تھے۔ بیگم پارہ کی ایک فلم کا افتتاح بھی ہوا مگر وہ پاکستان کے ماحول اور معاشرے میں ایڈجسٹ نہ کر سکی اور کچھ عرصے بعد ممبئی واپس چلی گئیں، جہاں 9 دسمبر 2008ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔

ناصر خان اور بیگم پارہ کے چار بچے ہیں ان میں سے چھوٹے بیٹے ایوب خان نے چند فلموں میں مرکزی کردار ادا کیا مگر وہ کچھ زیادہ کامیابی حاصل نہ کرسکا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp