ججز تبادلہ کیس میں لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ دستاویزات سے واضح ہوگیا کہ ججز کا تبادلہ آئین کے ساتھ فراڈ اور کالعدم قرار دینے کے قابل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ججز تبادلہ کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان نے اہم سوالات اٹھادیے
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ تبادلے کے لیے ججوں کے نام سیکریٹری قانون کی سمری میں سامنے آئے جبکہ اس وقت کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے لیے اندرون سندھ سے کوئی جج موجود نہیں۔
Lahore High Court Bar by Asadullah on Scribd
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے مطابق اندرون سندھ سے جسٹس خادم سومرو سے سینیئر بھی 7 نام موجود تھے جبکہ تبادلے کی سمری میں عوامی مفاد کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا۔
’رولز کے مطابق سیکریٹری قانون تبادلے کی سمری چیف جسٹس کے کہنے پر ہی بھجوا سکتے تھے، ججز کے تبادلے کے بجائے اندرون سندھ اور بلوچستان سے نئے ججز تعینات کیے جا سکتے تھے۔‘
مزید پڑھیں: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے ججز ٹرانسفر کی حمایت کیوں کی؟
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ بلوچستان سے تبادلے کا مطلب کئی اہل وکلا کی بطور جج تقرری روکنے کا باعث بنی، ریکارڈ کے مطابق آئینی عہدیداروں میں کسی مشاورت کے بغیر سمریز بھجوائی گئی تھیں۔