کچی آبادی اگر کچے گھر ہیں تو 90 فیصد بلوچستان کچی آبادی ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس

بدھ 30 اپریل 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کچی آبادیوں سے متعلق کیس میں چیئرمین سی ڈی اے اور سیکریٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا ہے۔

آئینی بینچ نے ممبر پلانگ سی ڈی اے کو بھی طلب کرتے ہوئے کچی آبادیوں سے متعلق قائم ورکنگ کمیٹی کے میٹنگ منٹس بھی مانگ لیے ہیں، کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔

دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ سی ڈی اے کی کچی آبادیوں کے لیے پالیسی کیا ہے، سندھ میں کچی آبادی ایکٹ موجود ہے، سی ڈی اے کا کام ہے کہ وفاقی حکومت کو کبھی آبادیوں سے متعلق قانون سازی تجویز کرے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا سی ڈی اے کو وائلڈ لائف بورڈ کے دفاتر واپس کرنے کا حکم

جسٹس حسن اظہر رضوی  بولے؛ ڈپلومیٹک انکلیو کے پاس بھی کچی آبادی ہے، یہ کتنی خطرناک بات ہے، وکیل سی ڈی اے منیر پراچہ نے بتایا کہ کچھ کچی آبادیوں کو تو ہم تسلیم کرتے ہیں، وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے متعلق قانون سازی کرے۔

آئینی بینچ نے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت سی ڈی اے بعض کچی آبادیوں کو تسلیم کرتا ہے اور بعض کو نہیں، جس پر وکیل سی ڈی اے نے بتایا کہ قانون کوئی نہیں ہے بس کچھ کو ہم ویسے ہی تسلیم کرتے ہیں۔

سی ڈی اے کے وکیل منیر پراچہ کو مخاطب کرتے ہوئے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کچی آبادی کہتے کس کو ہیں، کچی آبادی اگر کچے گھر ہیں تو 90 فیصد بلوچستان کچی آبادی ہے۔

مزید پڑھیں: بغیر اجازت کسی کا ڈی این اے ٹیسٹ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے : سپریم کورٹ

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ 2016 سے سپریم کورٹ نے کچی آبادیوں سے متعلق قانون سازی کی حکم دے رکھا ہے، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ 2015 سے مقدمہ زیر التوا ہے اور آج تک 10 سال ہوگئے کچھ نہیں ہوا۔

وکیل سی ڈی اے کا موقف تھا کہ عدالت کے حکم امتناع کی وجہ سے اسلام آباد میں کچی آبادیاں اور تجاوزات بڑھتی جارہی ہیں، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سی ڈی اے کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوتی۔

وکیل سی ڈی اے منیر پراچہ کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے قانون انصاف کمیشن میں قائم کمیٹی کے ہر اجلاس میں سی ڈی اے شریک ہوتا ہے، اس موقع پر عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کو ذاتی حیثیت میں عدالت طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔

قرآن پاک کی تعلیم لازمی قرار دینے سے متعلق کیس کی سماعت

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سندھ اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو قرآن پاک کی تعلیم لازمی قرار دینے سے متعلق معاملے پر جواب جمع کرانے کے لیے مہلت دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

قرآن پاک کی تعلیم لازمی قرار دینے کی درخواست پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے کی۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ خیبر پختونخوا اور سندھ کی کیا پوزیشن ہے، دونوں حکومتوں نے ابھی جواب فائل نہیں کیا وہ فائل کرلیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف کیس غیر موثر ہونے کی بنیاد پر نمٹادیا

جسٹس حسن اظہر رضوی  نے بتایا کہ سندھ میں بچپن میں پہلا پیریڈ ہی اسلامیات اور ناظرہ کا ہوتا ہے، 55 سال پہلے بھی ہم پہلا پیریڈ اسلامیات کا ہی لیتے تھے۔

وکیل انیق کھٹانہ کا مؤقف تھا کہ سندھ میں اس حوالے سے قانون ہی نہیں ہے اس حوالے سے جواب فائل بھی نہیں کریں گے، جس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس امین الدین خان بولے؛ یہ کون سا طریقہ ہے کہ وہ جواب فائل بھی نہیں کریں گے۔

اس موقع پر وکیل انیق کھٹانہ  نے اپنے الفاظ پر عدالت سے معذرت طلب کی، جسٹس جمال خان مندوخیل بولے؛ آپ اپنے لہجے پر توجہ دیں۔

عدالت نے سندھ اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کو جواب جمع کرانے کے لیے وقت دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp