سوڈان میں جاری خانہ جنگی کے دوران راکٹوں، مسلسل گولہ باری اور گلیوں میں تشدد کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک 35 سالہ پاکستانی عرفان خان نے رضاکارانہ طور پر کچھ دوسرے ساتھی شہریوں کو سفارت خانے تک پہنچایا لیکن وہ خود سوڈان چھوڑنا نہیں چاہتے۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق فوج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان لڑائی میں اب تک سیکڑوں افراد ہلاک اور لوگ اپنے گھروں میں چھپنے اور ہزاروں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
جیسے ہی سوڈان میں تنازع چھٹے دن میں داخل ہوا، 1500 سے زائد پاکستانیوں کو دارالحکومت خرطوم میں پاکستانی سفارت خانے سے پیغام ملا کہ اگر وہ پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں تو سفارت خانے آئیں۔
“سوڈان چھوڑنے پر آمادہ نہ دکھائی دینے والے عرفان خان کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے تقریباً 10-12 کلومیٹر کا سفر کیا تو سڑکیں لاشوں سے بکھری ہوئی تھیں، ٹائروں سے دھواں اُٹھ رہا تھا اور ہمارے چاروں طرف گولے بکھرے ہوئے تھے، ہمیں حکومتی فوج اور باغی دھڑے دونوں نے 6 سے زیادہ بار روکا بھی اور شناخت دریافت کی۔‘۔
“عرفان خان نے کہا کہ تمام تر مشکالت کے باوجود شکر ہے وہ لوگوں کو سفارت خانے چھوڑنے میں کامیاب رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ خرطوم میں آپٹکس کی دکان چلاتے ہیں اور یہاں ان کا کاروبار ہونے کے علاوہ دوست احباب بھی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک حالات کا تعلق ہے وہ آج نہیں تو کل بہتر ہوجائیں گے۔
عرفان خان کے بڑے بھائی سوڈان آئے تھے جس کے بعد وہ بھی کراچی سے 14 برس قبل وہیں منتقل ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کراچی کی نسبت خرطوم میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ ان کے بھائی واپس چلے گئے لیکن انہوں نے یہیں رہنا پسند کیا کیوں کہ یہ ملک اور یہاں کے لوگ زبردست ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جب لڑائی شروع ہوئی تو ماحول بہت خوفناک تھا لیکن گزشتہ چند دنوں کے دوران میں نے یہاں اپنے دوستوں سے زیادہ سے زیادہ بات کی اور خود پر قابو پایا جس کے بعد میں نے اپنا خوف ختم ہوتا محسوس کیا‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ کسی طرح پاکستان واپس چلے بھی جائیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ دوبارہ یہاں واپس بھی آسکیں اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ سوڈان میں ہی رہیں اور اپنے کاروبار کی دیکھ بھال کریں۔
عرفان خان کی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ ساتھ کراچی میں ان کے والدین نے بھی انہیں واپس آنے کا کہا ہے لیکن ان کا اصرار ہے کہ سوڈان میں ہی رہیں گے۔ تاہم انہوں نے اہل خانہ سے کہا ہے کہ وہ فکر نہ کریں ان کے پاس اتنی بچت اور وسائل ہیں جو چھ ماہ سے زائد عرصہ تک بھی چل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ یہاں سب ٹھیک ہے لیکن انہیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں چیزیں بہتر ہو جائیں گی۔
جنوبی ایشیائی ملک کی وزارت خارجہ کے مطابق اتوار تک 350 سے زائد پاکستانی سوڈان سے تین کھیپوں میں روانہ ہو چکے ہیں جب کہ مزید 500 سے کچھ زائد وطن واپس آنے کے لیے منتظر ہیں۔
تاہم سوڈانی سڑکوں پر کشیدہ لڑائی کے باوجود عرفان خان جیسے پاکستانی بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ یہاں سے نہیں جائیں گے۔
سوڈان میں مقیم ایک اور پاکستانی 40 سالہ جمیل حسین کپڑے کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں اس لیے رہ رہے ہیں کہ وہ اپنے پورے خاندان کو محفوظ طور پر یہاں سے نہیں نکال سکتے۔
سنہ 2009 میں خرطوم پہنچنے والے جمیل حسین نے سنہ 2011 میں ایک سوڈانی خاتون سے شادی کرلی تھی اور اب ان کے 3 بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ لڑائی چھڑنے کے بعد انہوں نے اپنے خاندان کو پاکستان لے جانے کی کوشش کی تو سفارت خانے نے اسے بتایا کہ ایسا ممکن نہیں ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے سفارت خانے سے پوچھا لیکن مجھے بتایا گیا کہ انخلا کا عمل پیچیدہ ہوگا کیوں کہ میرے باقی اہل خانہ سوڈانی شہری ہیں لہٰذا صرف میں واپس جا سکتا ہوں لیکن میرا خاندان نہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ انہں اپنے کاروبار کے نقصان کی کوئی پرواہ نہیں لیکن اپنے بیوی بچوں کو یہاں چھوڑجانے کے لیے وہ تیار نہیں کیوں کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ پھر یہاں واپس کب آسکیں گے۔