جہاز کا عملہ اور وبا کے دنوں میں پرواز

منگل 2 مئی 2023
author image

خاور جمال

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فروری 2020 کی ایک صبح اندرون ملک پرواز کے لیے اپنا ٹرالی بیگ گھسیٹتا ہوا ہوائی اڈے کے لاؤنج میں داخل ہوا۔ بیگ کے پہیے اور میرا دماغ ایک ساتھ گھوم رہے تھے کیوں کہ صبح کی چائے نہ پی سکا تھا۔ لاؤنج سے نکل کر جہاز کی طرف جاتے ہوئے کانوں میں کسی کے موبائل سے نکلتی ہوئی آواز پڑی جس کا مفہوم یہ تھا کہ چین میں نومبر سے آیا وائرس اب ہر جگہ رعایتی نرخوں کے بجائے مفت میں دستیاب ہو گا۔ اس وقت دھیان نہیں دیا لیکن جہاز پر مسافروں کے آنے سے پہلے چائے پی کر سوچا کہ اگر یہ وائرس ہمارے یہاں تک آ گیا تو کیا ہو گا۔ جیسے فن اور فن کار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اس طرح کرونا کی بھی کوئی سرحد نہ رہی اور یہ ہر طرف پھیل گیا۔

کرونا کے دنوں میں جہاں ساری دنیا کی انڈسٹری کو تالا لگا ہوا تھا وہیں ایئر لائن سے وابسطہ لوگوں پر بھی کڑا وقت تھا۔ اس دوران بہت سی ایئر لائن کمپنیوں نے اپنا حجم کم کرنے کے لیے اپنے ملازمین کو نکالنا شروع کر دیا یا لمبی رخصت پر بھیجنا شروع کر دیا۔ یہ ان کے لیے بھی شاید ضروری تھا کہ ان حالات میں کاروبار قائم رکھنا ایک کڑی آزمائش تھی۔ بہت سے فضائی میزبانوں نے بھی کڑا وقت دیکھا لیکن جب حالات کچھ بہتر ہوئے اور پابندیاں نرم ہوئیں تو ڈاکٹروں کے بعد فضائی میزبان ہی کرونا کے خلاف جنگ میں اگلے مورچوں پر تعینات تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ تمام مسافروں کا پرواز کے لیے جہاز پر آنے سے پہلے کرونا ٹیسٹ لازمی ہوتا تھا لیکن زرا سی بھول چوک بھی جہاز میں موجود تمام مسافروں کو کرونا سے روشناس کروانے کے لیے کافی تھی۔

چوں کہ سروس انڈسٹری میں مہمانوں سے رو برو رہنا پڑتا ہے لہذا یہاں زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی۔ جب فضائی سفر بحال کرنے کا سوچا گیا تو پائلٹوں اور فضائی میزبانوں کے لیے ایاٹا ( International Air Transportation Association – IATA) نے نئے قانون وضع کیے۔ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں پائلٹ اور جہاز کا عملہ ایک مکمل سفید حفاظتی لباس پہنے گا جسے پی پی ای ( Personal Protective Equipment – PPE) کہا جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہوتا ہے جیسے فلموں میں دشمن ملک کے سائنس دان اپنی خفیہ لیبارٹری میں کوئی کیمیائی بم بناتے وقت پہنتے ہیں۔ لیکن اس وقت یہ پہننا سب سے زیادہ ضروری تھا۔ مجھے تو ایسا لگتا تھا کہ یہ پہن کر جہاز کے بجائے کسی چاند گاڑی میں سفر کرنا ہے جو ایک بار اڑی تو پھر مریخ پر ہی اترے گی۔

مسافروں کے آنے سے پہلے یہ “خلعتِ بیضا” پورے طمطراق سے پہن کر مسافروں کا استقبال کیا جاتا۔ اس لباس کے ساتھ ساتھ ماسک لگانا اور پلاسٹک کے داستانے پہننا بھی لازمی تھا۔ اگر یہ لباس پہنے ہوئے پیپسی کی ڈیڑھ لیٹر بوتل اور کھانے کی ٹرے کے بجائے آلات جراحی میرے ہاتھ میں تھما دیئے جاتے تو میں ‘کھلے دل کی بدلی” (Open Heart Surgery) کرتا کسی عظیم سرجن سے کم ہرگز نہ لگتا۔ ماسک پہننے کا ایک اور فائدہ عملے کو یہ بھی ہوتا تھا کہ اگر دورانِ پرواز کسی مسافر کے سامنے ان کے بارے میں منہ سے تعریفی کلمات نکل جائیں تو وہ ان سے بہرہ ور نہ ہو سکیں بلکہ اس طرف سے بہرے ہی رہیں۔

پرواز کے دوران ہر آدھے سے ایک گھنٹے کے دوران مسافروں کو سینیٹائزر پیش کیا جاتا تا کہ کرونا کے جراثیم رہیں آپ سے دور رہنے پر مجبور۔ پرواز کے اختتام کے بعد جب تمام مسافر جہاز سے چلے جاتے تو اس وقت عملے کو یہ حفاظتی لباس اتارنے کی اجازت ہوتی۔ اس کے بعد مشکل مرحلہ درپیش ہوتا تھا۔ بین الاقوامی پرواز کے بعد منزل پر پہنچ کر جہاں تمام مسافروں کا دوبارہ کرونا ٹیسٹ ہوتا تھا وہاں عملے کے لیے بھی یہ ضروری تھا لہٰذا حسب ذائقہ ناک یا گلے میں تنکے گھسا کر ٹیسٹ لیا جاتا اور پھر دو دن عملہ اس انتظار میں رہتا کہ کیا نتیجہ نکلے گا۔

یہ ٹیسٹ کرواتے ہوئے ایسا لگتا تھا جیسے انگریزی فلموں میں فارنزک والے قاتل کا پتہ لگانے کے لیے ڈی این اے حاصل کرتے ہیں۔ بعد میں سوچا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ پتہ تو اس ٹیسٹ میں بھی قاتل کا ہی لگایا جا رہا ہوتا ہے بس فرق یہ ہے کہ قتل سے پہلے ہی پتہ چل جاتا ہے اور انسان کی جان بچانے کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

اس ٹیسٹ کے ہو جانے کے تقریباً دو دن تک عملے کو اپنے گھر میں “کوارنٹین بالرضا” کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور سب سے الگ تھلگ رہنا پڑتا تھا۔ وہ اس وجہ سے کہ اگر خدانخواستہ نتیجہ مثبت نکل آئے تو باقی گھر والے محفوظ رہ سکیں۔ دوسری صورت میں اگلی پرواز کی تیاری کرنی ہوتی تھی جس کی آمد پر پھر اسی روٹین سے گزرنا پڑتا تھا۔ یہ معاملات تمام دنیا کے عملے کے لیے بہت مشکل لیکن بہت ضروری تھے۔

ایک بات میں نے نوٹس کی کہ کرونا کے دنوں میں فضائی عملے کو کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی۔ کئی مہینوں سے پھنسے ہوئے لوگوں کو ان کی منزلوں پر پہنچانے کے لیے فضائی کمپنیوں نے اقدامات کیے تو فرنٹ لائن پر یہ عملہ ہی تھا۔ دنیا بھر کے فضائی میزبان اس میں شامل ہیں۔ خواہ وہ مسافر بردار جہاز ہوں یا امدادی سامان لانے والے کارگو جہاز۔ فضائی میزبانوں کے بغیر یہ پروازیں اڑنا ناممکن تھیں۔ کئی گھنٹے تک جہاز کے اندر تمام مسافروں کے ساتھ ری سائیکل ہوتی ہوا میں سانس لینے کا عمل جراثیم پھیلنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے لیکن تمام دنیا کے فضائی عملے کو اس کٹھن عمل سے بارہا اور ہر پرواز میں گزرنا پڑا۔

لوگ وبا کے دنوں میں محبت کرتے ہیں
ہم وبا کے دنوں میں پروازیں کر رہے تھے

وبا کے ہی دنوں میں کہ جب فضائی سفر پر پابندیاں کچھ نرم ہو چکی تھیں، مانچسٹر جانا ہوا۔ ہوائی اڈے پر اترے تو آنکھوں دیکھی صورت حال پر یقین کرنا مشکل ہو گیا۔ آج تک اتنا خالی اور سنسان کبھی اس ہوائی اڈے کو نہ پایا تھا۔ کاؤنٹر خالی پڑے تھے، سامان رکھ کر دھکیلنے والی ٹرالیاں غریب عوام کی مانند لمبی قطاروں میں جڑی ہوئی کھڑی تھیں۔ زمینی عملہ بھی خال خال نظر آ رہا تھا۔ ہوائی اڈے کے اندر تو ماسک پہننے پر سختی تھی لیکن شہر میں کوئی خاص زبردستی نہیں تھی جیسا ہمارے یہاں دیکھنے میں آتی تھی۔

ہوٹل میں داخل ہوئے تو استقبالیہ کی بے انتہا خوش اخلاقی سے یہ اندازہ لگا لیا کہ یہاں بس ہم ہی مہمان ہیں۔ سارا ہوٹل خالی پڑا تھا۔ اس بار غیر مرئی مخلوقات سے بھی رابطہ نہیں ہوا۔ گمان غالب تھا کہ ان میں بھی کرونا سرایت کر چکا ہو گا لہٰذا رات آرام سے کٹ گئی۔ صبح ناشتے کے نام پر ایک خاکی لفافہ پکڑا دیا گیا جس میں سے جوس کا ڈبہ، سیب، دہی کا پیکٹ اور ایک کیک پیس نکلا۔ تلے ہوئے انڈے، مکھن لگی ڈبل روٹی اور آلو کے بھورے قتلوں ( Hash Brown potatoes) کا ذائقہ لیے جو رال منہ سے ٹپک رہی تھی اس کو اسی خاکی لفافے سے صاف کیا اور باقاعدہ ناشتے کی تلاش میں ہوٹل سے باہر کا رخ کیا۔ شکر ہے کہ ایک بیکری کھلی تھی تو کچھ اچھا کھانے کو مل گیا۔

پھر پابندیاں اور کم ہوتی رہیں لیکن اسی اثناء میں دوسری لہر آ گئی۔ حالات پھر خراب ہونا شروع ہو گئے لیکن ویکسین کے آ جانے سے معاملات بہتر ہونے لگے۔ آہستہ آہستہ سب ملکوں نے فضائی پابندیاں ختم کر دیں اور معمول کے مطابق فضائی آمد و رفت بحال ہو گئی۔ کفن نما سفید حفاظتی لبادہ اتر گیا۔ ہوائی اڈے پھر سے آباد ہو گئے البتہ کچھ عرصہ ماسک پہننے کی عادت اپنائے رکھی کیوں کہ پرواز کے دوران سیکڑوں لوگوں سے ملنے کے بعد کسی سے ملنے کو دل نہیں کرتا۔ ماسک لگایا ہو تو بندہ پاس سے بھی گزر جائے تو پہچان میں نہیں آتا۔ آپ بھی یہ طریقہ اپنائیں اور غیر ضروری طور پر ملنے ملانے کی مشکل سے نجات پائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خاور جمال ہر صورتحال میں مزاح کا پہلو ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ کہانیاں لکھنے اور کرانے کا شوق رکھتے ہیں۔ اچھی فلم اور سیزن ان کی کمزوری ہیں۔ 15 سال بطور فضائی میزبان بھی کام کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp