سائرن، خندق، جنگ اور بچے!

ہفتہ 10 مئی 2025
author image

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قارئین، جس موضوع پر ہم لکھ رہے تھے اسے موقوف کرتے ہوئے کچھ یادیں تازہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ملک عزیز پر چھائے جنگ کے سائے، غیر یقینی صورتحال اور سرحدوں پر کشیدگی نے یاسیت طاری کر دی ہے شاید۔

ہمارے بچپن کی یادوں میں بہت سی ایسی کہانیاں موجود ہیں جب ہم نے بہت کچھ دیکھا، برتا مگر ننھا سا ذہن سمجھ نہیں پایا کہ ہو کیا رہا ہے؟

1971 کے آخری مہینوں کی بات ہے جب ابا سرشام ہی ریڈیو کے سامنے بیٹھ کر بی بی سی سے خبریں سننے کا انتظار کرتے۔ امی ابا سے بار بار پوچھتیں کہ کیا واقعی جنگ چھڑنے والی ہے؟ ابا کے چہرے پر تذبذب کے آثار ہوتے، جیسے کچھ کہنا بھی چاہتے ہوں اور نہیں بھی۔

انہی دنوں گلی میں کھیلتے کھیلتے انکشاف ہوا کہ گلی کے آخر میں موجود میدان میں کھدائی ہورہی ہے۔ اینٹوں سے بنی پختہ طویل گلی کے آخر میں ایک قبرستان تھا اور قبرستان کے سامنے ایک میدان۔ مارے اشتیاق کے گلی کے دوسرے بچوں کے ساتھ بھاگتے بھاگتے ہم بھی پہنچے، کدالیں ہاتھ میں تھامے کچھ لوگ تیزی سے زمین کھود رہے تھے۔ ہم نے سوچا کہ شاید کوئی نیا گھر بنے گا یہاں پر لیکن گھر آکر ہم نے ابا کو کہتے سنا کہ گلی میں خندق کھد رہی ہے۔

’خندق؟ یہ کیا ہوتی ہے؟‘

ہم نے حیرت سے سوچا، پوچھتے پوچھتے رہ گئے کہ امی ابا کے چہروں پر تشویش کے آثار تھے۔

’کیسے جائیں گے خندق تک؟‘، امی نے ابا سے پوچھا۔

سائرن بجے گا اور اس وقت سب گھر چھوڑ کر خندق میں جائیں گے، ابا نے جواب دیا۔

’چھوٹے بچوں کے ساتھ بہت مشکل ہوگی‘، امی نے کہا۔

ابا چپ رہے۔

آنے والے دنوں میں بہت سی اور باتیں رونما ہوئیں جن میں ایک یہ تھی کہ ابا نے بہت سے کالے کاغذ لاکر دیے جو سب نے مل جل کر کھڑکیوں پر چسپاں کردیے۔

پھر سب کو ہدایات ملیں کہ جونہی سائرن کی آواز آئے، بتیاں بجھا دینی ہیں اور خندق کی طرف دوڑ کر جانا ہے۔

اور ہماری یادداشت میں وہ دن رات محفوظ ہیں جب سائرن کی آواز سنتے ہی ہم کسی نہ کسی کی انگلی پکڑے خندق کی طرف دوڑتے تھے۔ فضا میں سائرن کی آواز کے ساتھ فائٹر طیاروں کی آواز بھی شامل ہوتی۔ سائرن کی آواز سن کر اچھل کر بتیاں بجھانا سب بچوں نے سیکھ لیا تھا۔

خندق تک پہنچ کر پہلے بڑے اس میں کودتے پھر بچوں کو پکڑ کر اتارتے اور پھر سب ایک دوسرے کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتے۔ فضا میں اڑتے طیاروں کی آواز کبھی اتنی تیز ہوتی کہ لگتا میدان میں طیارہ اترنے کو ہے اور کبھی دور چلی جاتی۔

ہم تھے تو چھوٹے مگر تب بھی ہمارا ننھا سا ذہن حساب لگانے کی کوشش کرتا کہ کیوں بھئی کیوں؟ کس کی کس سے لڑائی؟ ہوائی جہاز بچوں کے گھروں پر بم گرانے کیوں آتے ہیں؟ دشمن کا کیا مطلب ہے؟ انڈیا اور ہم ایک دوسرے کے دشمن کیوں ہیں؟ کیا جیت کے لیے لوگوں کو مارنا ضروری ہوتا ہے؟ جواب کی تلاش میں ذہن بے چارہ ٹامک ٹوئیاں مارتا رہ جاتا۔

پھر ان دنوں ہی ایک اور بات ہوئی۔ ہمارا گھر سی ایم ایچ کے قریب ہی تھا۔ ایک دن ابا کو باتیں کرتے سنا توعلم ہوا کہ امی کے رشتے کے بھائی جو محاذ جنگ پر تھے، شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے ہیں۔

کس جگہ ہورہی ہے جنگ؟ ہم نے سوچا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

ابا دفتر واپسی پر روزانہ اسپتال جاتے اور ماموں کو دیکھ کر گھر آتے جہاں امی بے چینی سے ان کی خیریت پوچھتیں۔ ابھی ان کی حالت خطرے سے باہر نہیں تھی سو ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ امی پریشان ہوکر تیزی سے تسبیح رولنے لگتیں۔

دن گزرتے گئے اور ایک روز امی کو اسپتال جانے کی اجازت مل گئی۔ امی کے ساتھ ہم نہ جاتے، یہ کیسے ممکن تھا۔ امی نے لاکھ کہا کہ بچوں کو اسپتال جانے کی اجازت نہیں مگر ہم کہاں ماننے والے تھے، شاید ہم خود کو بچہ ہی نہیں سمجھتے تھے۔

امی ماموں سے ملیں تو دونوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر ماموں تفصیل سنانے لگے ’بس آپا جی، لگتا تو نہیں تھا کہ بچوں گا، گولیوں کا پورا برسٹ پیٹ میں لگا، ساری آنتیں باہر نکل آئیں، پر میں نے ہمت نہیں ہاری، آنتیں واپس پیٹ میں ڈال کر اوپر کپڑا باندھ لیا، خون نکلتا رہا، بس پھر اتنا یاد ہے کہ کسی نے اٹھا کر ہیلی کاپٹر میں ڈالا تھا‘۔

پھر آنکھ ادھر ہی کھلی، لیکن آپا جی، سمجھ نہیں آئی کہ مجھے ڈھاکہ سے پنڈی لائے کیسے؟

’بھائی، ابھی زندگی تھی تمہاری، تم آپا ثریا کے اکلوتے بیٹے ہو، شکر ہے کہ تم بچ گئے‘، امی نے نم آنکھوں سے کہا۔

وہ دونوں گاؤں کی باتیں شروع کردیتے مگر ہماری سوئی آنتوں پر اٹکی رہ جاتی۔ ہائے کیسی لگتی ہوں گی پیٹ سے باہر نکلی ہوئی آنتیں؟ کیا ماموں کو درد نہیں ہوا ہوگا؟ اف کیسے واپس ڈالی ہوں گی؟ اور اگر نہ ڈالی جاتیں پیٹ میں واپس تو کیا وہ بچ پاتے؟

آنتوں کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے تھے سوائے اس کے کہ پیٹ میں ہوتی ہیں اور ان میں کھانا ہضم ہوتا ہے۔

ماموں کئی مہینے اسپتال میں رہے۔ چلنے پھرنے کے قابل تو ہوگئے مگر مکمل صحت مند ہونے سے پہلے اسپتال سے چھٹی ملنا مشکل تھی۔ ہمارے دونوں بھائیوں کا اسکول سی ایم ایچ کے قریب ہی تھا اور وہ ان سب خفیہ راستوں کی خبر رکھتے تھے جن سے باہر نکلا جاسکتا تھا۔ اکثر شام میں وہ ماموں کو ان راستوں سے نکال کر گھر لاتے اور کچھ دیر بعد واپس چھوڑ آتے۔

ماموں صحت مند ہوکر گاؤں واپس چلے گئے اور فوج سے ریٹائر منٹ مل گئی۔ مگر وہ آج تک یہ کہانی سنانا نہیں بھولتے کہ آپا جی عظمت کے بچے کس قدر کاریگر تھے۔

50 برس گزرنے کے بعد آج فضا میں پھر سے فائٹر طیارے اور ڈرون موجود ہیں۔ فضا سنسنا رہی ہے اور سوال آج بھی بہت سے ہیں مگر جواب کوئی نہیں۔

ہم نہیں سمجھ پائے کہ دونوں ملکوں میں رہنے والے لوگ پیدائش کے وقت تو انسان ہی ہوتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ خون آشام کیوں بن جاتے ہیں؟

کیا کبھی کوئی بتائے گا؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp