سعودی عرب: جنگ کی بو میں، امن کی خوشبو

پیر 12 مئی 2025
author image

طلحہ الکشمیری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیا کی سب سے پرخطر سرحد، پاکستان اور بھارت کے درمیان کھنچی ہوئی وہ لکیر ہے جس نے نصف صدی سے زائد عرصے میں صرف دونوں ممالک کی افواج کو آمنے سامنے نہیں کیا، بلکہ عالمی سیاست کے رخ بھی متعین کیے۔ کبھی کشمیر کے نام پر، کبھی پانی، کبھی دہشتگردی، تو کبھی محض داخلی سیاست کے داؤ پیچ کے لیے یہ لکیر شعلہ بن جاتی ہے۔

مگر وقت کے ساتھ ساتھ جہاں اس خطے میں اسلحہ بڑھا، وہیں ایک خاموش مگر بصیرت افروز سفارت کاری نے بھی جنم لیا، جو زور آور آوازوں کے شور میں سنائی تو کم دیتی ہے، مگر اس کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ ایسی ہی سفارت کاری کا مظہر حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران سعودی عرب کی ثالثی کے طور پر سامنے آیا۔

2024  کے اختتام پر اور 2025 کے آغاز میں لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب غیر معمولی نقل وحرکت، سرحدی خلاف ورزیاں، اور میڈیا کے میدان میں نفرت انگیز مہمات نے جنوبی ایشیا کو ایک بار پھر ایٹمی تصادم کی طرف دھکیل دیا۔ بھارت کی طرف سے روایتی الزام تراشی، اور پاکستان کی جانب سے جواباً مؤثر سفارتی، عسکری اور معلوماتی ردعمل نے ایک ایسی فضا بنا دی جہاں جنگ کا خطرہ حقیقی محسوس ہونے لگا تھا۔ اس فضا میں عالمی برادری نے حسبِ معمول تشویش کا اظہار کیا، مگر اس مرتبہ سعودی عرب نے خاموش ثالث نہیں، بلکہ ایک فعال مصالحت کار کا کردار ادا کیا۔

سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور، جناب عادل الجبیر نے دہلی اور اسلام آباد کے متواتر دورے کیے، وہ بھی ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کی افواج مکمل طور پر ہائی الرٹ پر تھیں۔ ان کے دورے محض علامتی نہیں تھے، بلکہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی قیادت میں ایک مربوط سفارتی کوشش کا حصہ تھے جس میں امریکا، چین اور دیگر اثر انگیز قوتوں کو بھی متحرک رکھا گیا۔ سعودی عرب کی یہ حکمت عملی نہ صرف بروقت تھی بلکہ تہذیبی وقار کے ساتھ بھی آراستہ تھی۔ اس ثالثی کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ یہ یکطرفہ نہیں تھی۔ نہ پاکستان کو بھارتی مفادات کے آگے جھکنے کا مشورہ دیا گیا، نہ بھارت کو پاکستان پر زور آزمائی کی اجازت ملی۔ یہی وہ توازن ہے جس کی اس خطے میں ہمیشہ کمی رہی ہے۔

یہ امر حیرت انگیز نہیں کہ سعودی عرب نے ثالثی کی یہ راہ ابھی چنی، بلکہ حیرت اس بات پر ہے کہ اس نے برسوں کی خاموشی کو ختم کر کے یہ فیصلہ ایسے وقت پر کیا جب دونوں ممالک ایک دوسرے کو سفارتی محاذ پر بھی کچلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ماضی میں سعودی عرب، خلیجی وقار اور عالم اسلام کی وحدت کے پیش نظر، اکثر ایسے تنازعات پر خاموش رہتا تھا یا پس پردہ حمایت کرتا تھا۔ مگر اس مرتبہ سفارت کاری کے انداز میں جو تبدیلی دیکھی گئی، وہ نہ صرف شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کا سیاسی تسلسل ہے، بلکہ ایک نئی عالمی سوچ کی جھلک بھی ہے، جو طاقت کے بجائے توازن اور اثرورسوخ کے ذریعے علاقائی استحکام کو ممکن بنانا چاہتی ہے۔

اس سفارت کاری کا ایک منفرد پہلو وہ اعتبار ہے جو سعودی عرب کو پاکستان اور بھارت دونوں میں حاصل ہے۔ بھارت سعودی عرب کو ایک اہم تجارتی و توانائی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان سعودی عرب کو نہ صرف حرمین کا نگہبان سمجھتا ہے، بلکہ ایک دیرینہ اور آزمودہ برادر ملک بھی، جس نے ہر مشکل وقت میں اس کی سیاسی و مالی مدد کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سعودی عرب ثالثی کی نیت سے آگے بڑھا تو کسی نے اسے مسترد نہیں کیا، اور یہی اس کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی ہے۔

اس ثالثی کو اگر ایک وسیع تر عالمی سیاق میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ محض پاک بھارت بحران کے حل کی کوشش نہیں بلکہ سعودی خارجہ پالیسی کی سمت کا اظہار بھی ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس نے 1980 کی دہائی میں افغان کنفلکٹ کے دوران افغانیوں کو مکہ میں اکٹھا کیا، 2007 میں فلسطینی دھڑوں کو جوڑنے کی کوشش کی، اور حال ہی میں روس اور یوکرین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے اشارتی مذاکرات میں بھی کردار ادا کیا، اسی طرح امریکا اور روس کو بھی جمع کیا، یہی وہ تدریجی سفر ہے جو اب جنوبی ایشیا تک آ پہنچا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ لمحہ تجزیہ، تشکر اور تدبیر کا ہے۔ تجزیہ اس بات کا کہ اگر سعودی ثالثی نہ ہوتی تو کیا حالات جنگ میں بدل سکتے تھے؟ تشکر اس اعتماد کا جو ریاض نے پاکستان پر برقرار رکھا، اور تدبیر اس پالیسی کی جو اس ثالثی کو وقتی حل کے بجائے ایک مستقل امن حکمت عملی میں بدل سکتی ہے۔ سعودی عرب کو بھی اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ثالثی کو صرف وقتی بحرانوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے امن، سفارت کاری کے ادارے میں بدلنے کی جانب بڑھنا چاہیے۔

اگر آج پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے سے واپس پلٹے ہیں، تو اس میں سعودی سفارت کاری کی مہذب طاقت، وقت شناسی، اور توازن فہمی کا بڑا کردار ہے۔ اگر کل کو یہ خطہ پائیدار امن کی راہ پر چل پڑے، تو اس کی بنیاد انہی خاموش مگر مؤثر قدموں میں تلاش کی جا سکتی ہے جو ریاض سے اٹھے اور دہلی واسلام آباد کی فضا کو کسی حد تک صاف کر گئے۔

اور اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے، تو اسے لازم ہے کہ وہ طاقت کی دہلیز سے ہٹ کر، تہذیب، توازن اور ثالثی کی اس روش پر قدم رکھے، جس کا نشان سعودی عرب نے پاک بھارت بحران میں قائم کیا ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب امن، کمزوری نہیں، بلکہ دانائی بن چکا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طلحہ الکشمیری اقوام متحدہ، پاک عرب تعلقات، انسانی حقوق، جنوبی ایشیا اور پاکستان سے متعلق امور پر حقائق پر مبنی تجزیاتی اور محققانہ تحریریں قلم بند کرتے ہیں، اردو، اور عربی زبان و ادب کے ساتھ گہری مناسبت رکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ہم نے اوور ورکنگ کو معمول بنا لیا، 8 گھنٹے کا کام کافی: دیپیکا پڈوکون

27ویں آئینی ترمیم کیخلاف احتجاجاً لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شمس محمود مرزا بھی مستعفی

عالمی جریدوں نے تسلیم کیا کہ عمران خان اہم فیصلے توہمات کی بنیاد پر کرتے تھے، عطا تارڑ

جازان میں بین الاقوامی کانفرنس LabTech 2025، سائنس اور لیبارٹری ٹیکنالوجی کی دنیا کا مرکز بنے گی

دہشتگرد عناصر مقامی شہری نہیں، سرحد پار سے آتے ہیں، محسن نقوی کا قبائلی عمائدین خطاب

ویڈیو

گیدرنگ: جہاں آرٹ، خوشبو اور ذائقہ ایک ساتھ سانس لیتے ہیں

نکاح کے بعد نادرا کو معلومات کی فراہمی شہریوں کی ذمہ داری ہے یا سرکار کی؟

’سیف اینڈ سیکیور اسلام آباد‘ منصوبہ، اب ہر گھر اور گاڑی کی نگرانی ہوگی

کالم / تجزیہ

افغان طالبان، ان کے تضادات اور پیچیدگیاں

شکریہ سری لنکا!

پاکستان کے پہلے صدر جو ڈکٹیٹر بننے کی خواہش لیے جلاوطن ہوئے