اس تحریر کا عنوان پڑھ کر اگر آپ کی صالح طبیعت میں تکدر پیدا ہوا ہو تو ابتدا ہی میں میری معذرت قبول کیجیے۔ اپنے دفاع میں مجھے بس اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ یہ عنوان سلیم احمد مرحوم سے مستعار ہے۔
سلیم احمد سے تو آپ واقف ہوں گے۔ اردو ادب کا ایک ثقہ حوالہ۔ منفرد شاعر اور ادیب۔ اردو تنقید کی ایک روایت کے سب سے مستند شارح جو محمد حسن عسکری سے معنون ہے۔ ایک مستند کالم نگار جو روزنامہ ‘حریت’ اور ‘جسارت’ میں لکھا کرتے تھے۔
سلیم احمد میں چونکا دینے کی بے پناہ صلاحیت تھی۔ ان کی شاعری اور مضامین سے اس کی بیسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ان کے مضامین کے عناوین بھی چونکا دینے والے تھے۔ ’اسلامی زندگی مع چھ رنگین ناچوں کے’، ’فکر کا طاعون’، ’الف‘، ’میں اور شام کا وعدہ’۔
انہوں نے ‘ساقی’ (جون 1951) کے لیے آزادی رائے پر ایک مضمون لکھا اور اس کے لیے عنوان باندھا: ’آزادی رائے کو بھونکنے دو‘۔
سلیم احمد میں چونکا دینے کی صلاحیت بہت بامعنی تھی۔ اس کا اندازہ ان کا سنجیدہ قاری ہی کرسکتا ہے۔ یہ پڑھنے والے کو متوجہ کرنے کی سطحی کوشش ہرگز نہیں تھی۔ میں نے جب بھی ’آزادی رائے‘ کواپنی تحریر یا گفتگو کا موضوع بنایا، مجھے ہمیشہ ان کی یاد آئی۔ سلیم احمد نے آزادئ رائے کے باب میں 2 کرداروں کا ذکر کیا ہے: حکومت اور ادیب۔ آج پریس کی آزادی کا دن ہے، اس لیے میں ادیب کے بجائے صحافی کا ذکر کروں گا جو شاید ادیب کی جگہ لے چکا۔
مجھے سلیم احمد سے اتفاق ہے کہ حکومت ایک نگران ادارہ ہے جس کا کام محض اتنا ہے کہ وہ اجتماعی نظم و نسق کو برقرار رکھے۔ اگر کہیں ضروری سمجھے تو رہنمائی کردے اور یہ محض ’رہنمائی‘ ہو، کسی مؤقف کا جبری نفاذ نہ ہو۔ صحافی کا کام رائے عامہ کی تشکیل ہے۔ یہ فریضہ سرانجام نہیں دیا جاسکتا اگر اسے آزادی رائے کا حق حاصل نہ ہو۔ حق، احساسِ ذمہ داری سے بے نیاز ہوجائے تو انارکی پیدا ہوتی ہے۔ سماجی نظم قائم رکھنا محال ہوجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’احساسِ ذمہ داری‘ ریاستی جبر سے پیدا ہوتا ہے یا یہ صحافی کی رضاکارانہ کاوش کا حاصل ہے؟
ہمارے ملک میں ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری سے اکثر غافل رہی ہے۔ یہ ذمہ داری عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ جو ریاست یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتی، اس کا وجود ہی ثابت نہیں۔ بنیادی انسانی حقوق اسی کی شرحِ مزید ہے۔ اس میں آزادی رائے بھی شامل ہے۔ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ اپنے مذہبی، سیاسی اور سماجی خیالات کے اظہار میں آزاد ہوں۔
شخصی آزادی کے بغیر سماجی ارتقا کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے ہاں ریاست نے وہ کام اپنے ذمہ نہیں لیا جو اس کا اصل فریضہ تھا۔ جیسے جان و مال کا تحفظ اور اسے اپنا فریضہ سمجھا جو اس کا نہیں تھا جیسے قومی بیانیے کی تشکیل اور عوام پر اس کا بزور نفاذ۔ نظامِ تعلیم کے ذریعے یا ریاستی مشینری کے ہاتھوں۔
جان کی حفاظت میں بھوک اور افلاس کا علاج سب سے اہم ہے۔ بھوک بھی قاتل ہے اور افلاس بھی۔ اس کا ہاتھ روکنا ریاست کا فریضہ ہے۔ ریاست نے یہ کام سماجی اداروں اور این جی اوز کے سپرد کردیا ہے اور خود بیانیے کی تشکیل کے لیے مصروف ہوگئی ہے جو اصلاً اہلِ دانش کا کام ہے۔
دانشور فکری ارتقا کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں اور ریاست اس کام میں سہولت کار ہوتی ہے۔ وہ اس کا اہتمام کرتی ہے کہ کوئی گروہ یا فرد کسی دوسرے پر اپنا بیانیہ زور زبردستی سے مسلط نہ کرے اور کسی کو اپنی بات کہنے سے روکا نہ جاسکے۔
صحافی کا کام سماج کی فکری اور شعوری تشکیل ہے۔ اس نے طویل عرصہ یہ ذمہ داری نبھائی اور اس کی ایک قیمت بھی ادا کی۔ اس نے یہ کام رضاکارانہ طور پر کیا اور اسے اپنی فریضہ سمجھا۔ پھر ایک طبقے نے اپنے اصل کام سے صرفِ نظرکرتے ہوئے، ریاست کا سہولت کار بننا قبول کرلیا۔ اب ریاست بیانیہ دیتی ہے اور وہ اس کا شارح بن جاتا ہے۔
اس کا بڑے بڑے مظاہر ہم نے گزشتہ برسوں میں دیکھے جب کچھ کو بے مہار آزادی دے کر ایک بیانیے کی ترویج و اشاعت میں لگا دیا گیا۔ ان کو یہ ثابت کرنا تھا کہ یہ اہلِ سیاست ہیں جو قومی مجرم ہیں۔ قوم کی نجات اسی میں ہے کہ سیاست کو ان سے نجات مل جائے۔ اس لیے ہمیں نئی قیادت کی ضرورت ہے۔ آزادی رائے اس بیانیے کی اشاعت تک محدود ہوگئی۔ جنہوں نے اس بیانیے سے اختلاف کرنا چاہا، ان پر آزادی رائے کا دروازہ بند کردیا گیا۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات کے دروازے بند ہونے کا یہی مطلب ہے۔
ہم اس کو بین الاقوامی حوالے سے بھی دیکھتے ہیں۔ وہاں بھی آزادی رائے عالمی اسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال بن گئی۔ ذرائع ابلاغ کی مدد سے ایک خاص بیانیہ تشکیل پایا جس میں فلسطین اور کشمیر کے مظلوموں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ بظاہر انسانی حقوق کی بات ہورہی تھی لیکن دنیا کی ایک بڑی آبادی کو ’انسان‘ کی تعریف سے خارج کردیا گیا۔
ایڈروڈ سعید نے برسوں پہلے Covering Islam میں اس کا پول کھول دیا تھا۔ مغرب کو اسلاموفوبیا کا مرض یوں ہی لاحق نہیں ہوا۔ ذرائع ابلاغ نے اس کے وائرس کو پھیلانے کے لیے برسوں محنت کی ہے۔ اسلاموفوبیا کو اس آزادئ رائے‘ کا شاخسانہ سمجھنا چاہیے جو عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں فروغ پاتی ہے۔
سلیم احمد کا اشارہ شاید آزادی رائے کے اسی سوئے استعمال کی طرف تھا جب انہوں نے یہ عنوان باندھا تھا۔ انہوں نے یہ مضمون 72 برس پہلے لکھا تھا۔ آج شاید ادیب کی جگہ صحافی نے لے لی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رائے سازی کا جو کام کل ادیب کرتا تھا، آج میڈیا کررہا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ عالمی ہو یا مقامی، اگر میڈیا اس کا سہولت کار بن جائے تو آزادی رائے کی نعمت سے لطف اٹھا سکتا ہے۔ اگر وہ اس بندوبست کو قبول کرلے تو اس کے لیے آزادی رائے ایک آزار بن جاتی ہے۔ صحافی کو اسی آزار کے خلاف لڑنا ہے۔ یہ کئی محاذوں سے حملہ آور ہوتا ہے۔ ایک محاذ داخلی ہے اور بہت سے خارجی۔ اصل لڑائی وہی ہے جو صحافی کو داخل میں لڑنی ہے۔
اسی محاذ پر فتح و شکست کا فیصلہ ہونا ہے۔ اس بات کی مزید تفہیم کے لیے ہم ایک بار پھر سلیم احمد کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی 2 مصرعوں کی ایک نظم ‘حق’ میں ادیب کو ایک لائحہ عمل دیا ہے۔ ہمارے صحافی کے لیے بھی یہی آج کے دن کا پیغام ہے:
‘روٹی پر کتے لڑتے ہیں
میں روٹی کے حق پر لڑتا ہوں’۔