امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پناہ گزین کا درجہ دیے گئے 59 سفید فام جنوبی افریقی باشندے پیر کے روز ورجینیا کے واشنگٹن ڈلس انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچ گئے۔ یہ ٹرمپ دور میں پہلے مہاجرین ہیں جنہیں امریکا میں سیاسی پناہ دی گئی ہے، اور امکان ہے کہ مزید افریکنرز بھی آئندہ امریکا منتقل ہوں گے۔
امریکی حکام کے مطابق، یہ افراد مبینہ طور پر نسلی امتیاز اور سنگین خطرات کا شکار تھے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ کرسٹوفر لینڈاؤ اور ڈپٹی سیکریٹری برائے ہوم لینڈ سیکیورٹی ٹرائے ایڈگر نے ان مہاجرین کا خیر مقدم کیا اور انہیں امریکی سرزمین پر خوش آمدید کہا۔
لینڈاؤ نے کہا کہ یہ افراد اچھی کوالٹی کے بیجوں کی طرح ہیں جو امریکی سرزمین میں پھلیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا میں پناہ گزینوں کے لیے مطابقت ایک اہم معیار ہے۔
مزید پڑھیں: چین امریکا سیزفائر، دونوں ممالک محصولات 3 ماہ کے لیے کم کرنے پر راضی
ٹرمپ انتظامیہ نے جہاں ایک جانب ان سفید فام مہاجرین کے داخلے کو ترجیح دی، وہیں دوسری جانب دیگر ممالک سے آنیوالے جنگ زدہ اور قحط سے متاثرہ مہاجرین کی آبادکاری کو معطل کر دیا گیا ہے، جس پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔
جنوبی افریقی صدر سیرل رامافوسا نے اس اقدام کو غلط بیانی قرار دیا اور کہا کہ یہ افراد مہاجرین کی تعریف پر پورے نہیں اترتے۔ یہ لوگ ظلم و ستم کا شکار نہیں، بلکہ وہ اپنے ملک میں ہونے والی آئینی تبدیلیوں کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔
Refugees Internationalکے صدر جیریمی کونینڈائک نے اس پالیسی کو نسلی بنیاد پر مہاجرین کی آبادکاری کا بہروپ قرار دیا اور کہا کہ دنیا بھر میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو واقعی جنگ، ظلم اور مظالم کی بنیاد پر مہاجر بنے، ان کی نسبت ان افریکنرز کو تحفظ دینے کی کوئی فوری ضرورت نظر نہیں آتی۔
ٹرمپ اور ان کے اتحادی ایلون مسک جنوبی افریقہ کی زمین اصلاحات پر شدید نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ اس قانون کے تحت، حکومت بعض صورتوں میں زمین بغیر معاوضے کے واپس لے سکتی ہے تاکہ نسلی تفاوت کو ختم کیا جا سکے۔