پاکستان کی امریکا نوازی، کیا لیاقت علی ذمہ دار تھے؟

بدھ 3 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اب سے ٹھیک تہتر سال پہلے مئی 1950 میں پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان امریکا کے دورے پر تشریف لے گئے ۔ اس دورے کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات خاصے بہتر ہوگئے اور پاکستان بتدریج امریکا کے حلقے میں سرگرمی سے شامل ہوتا گیا ۔
لیکن کیا پاکستان کی امریکا نوازی کا ذمہ دار صرف لیاقت علی خان کو قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب دینے کے لیے ہمیں تھوڑا پس منظر جاننا ہوگا ۔
انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ دو بالکل مختلف نقطہِ نظر کی جماعتیں تھیں ۔ کانگریس کے رہ نماؤں میں جواہر لال نہرو آزادی سے قبل ہی سوویت یونین کا دورہ کرچکے تھے اور وہ سوویت سوشلسٹ معیشت کے بڑی حد تک قائل ہوچکے تھے ۔
اس کے مقابلے میں مسلم لیگ کے سربراہ محمد علی جناح سوویت یونین یا سوشلسٹ نظام سے بالکل متاثر نہیں تھے بل کہ بارھا اس بات کا اظہار کرچکے تھے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہوگا ۔
آزادی کے بعد بھارت کا جھکاؤ واضح طور پر سوویت یونین کی جانب تھا پھر بھی اس نے امریکا سے ناراضگی مول نہیں لی ۔
پاکستان میں کشمیر کے مسئلے پر بین الاقوامی مدد کی ضرورت تھی لیکن سوویت یونین واضح طور پر بھارت کے ساتھ کھڑا تھا ۔ ایسے میں جناح صاحب نے امریکا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو ساری کابینہ اپنے رہ نما کے ساتھ کھڑی تھی ۔ گو کہ پارلیمانی نظام میں وزیرِاعظم کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہیں لیکن پاکستان میں جناح صاحب نے گورنر جنرل ہونے کے باوجود کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی ۔
جب 1948 میں قائد اعظم کا انتقال ہوگیا تو اس وقت تک پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ابتدائی خد وخال واضح ہوچکے تھے ۔ پاکستان کی پہلی کابینہ کے چار وزیر بڑا اہم کردار ادا کر رہے تھے ۔ وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ خان، وزیرِ خزانہ ملک غلام محمد، مشتاق احمد گرمانی اور سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا اور ان کے ہم راہ سیکریٹری خزانہ چوہدری محمد علی تھے جو چیف سیکریٹری کا روپ دھار چکے تھے ۔
یہ سارے حضرات واضح طور پر سوویت یونین کے مقابلے میں مغربی ممالک خاص طور پر امریکا اور برطانیہ کے لیے خاصا نرم گوشہ رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان سوویت یونین کے بجائے مغربی سرمایہ دار ممالک کی جانب جھکاؤ رکھے ۔ اس دوران میں دسمبر 1949 میں سوویت یونین نے پاکستان کے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو دورے کی سرکاری دعوت ارسال کی لیکن اس پر بوجہ پیش رفت نہ ہوسکی ۔
پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان اس کوشش میں لگ گئے کہ امریکا سے دورے کی دعوت منگوالی جائے تاکہ وزیراعظم لیاقت علی خان سوویت یونین کے بجائے امریکا کے دورے پر تشریف لے جائیں ۔ انہیں اس کوشش میں کام یابی ہوئی اور بالآخر مئی 1950 میں لیاقت علی نے امریکا کا دورہ کیا ۔
لیکن اس دورے کے لیے یا اس کے بعد کے پاک امریکا تعلقات کے لیے صرف لیاقت علی کو ذمہ دار قرار دینا درست نہیں ۔ لیاقت علی نے اپنے دورے کے دوران بار بار اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان امریکا سے معاشی اور فوجی امداد کا خواہاں ہے اور اس کے لیے طویل مدّتی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے ۔ اس دورے سے لیاقت علی کی پوری کابینہ خوش تھی اور کسی نے بھی سوویت یونین کا دورہ کرنے کے لیے لیاقت علی پر زور نہیں دیا ۔
امریکی دورے کے بعد ایک سال کے اندر ہی پاکستان میں بائیں بازو کے سرگرم کارکنوں اور ترقی پسند رہ نماؤں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا گیا ۔ صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی صوبائی حکومت کو تو جناح صاحب کے دور میں ہی برطرف کردیا گیا تھا اور خان عبدالقيوم خان کو صوبہ سرحد حوالے کردیا گیا تھا جنہوں نے کشمیر میں قبائلیوں کو بھیجنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا ۔
مارچ 1951 میں لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ ایک سازش پکڑی گئی ہے جس میں کچھ فوجی افسر اور کمیونسٹ رہ نما شامل تھے جسے راولپنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا ۔ اس مقدمے میں فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، محمد حسین عطاء وغیرہ کو گرفتار کرکے سزائیں سنائی گئیں اور کچھ فوجی افسر بھی برطرف اور پسِ زنداں کیے گئے ۔
اس کے بعد امریکا کا اثر رسوخ پاکستان میں تیزی سے بڑھنا شروع ہوا ۔ غالباً لیاقت علی خان امریکا جانب اتنی تیزی سے جھکنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن ان کی کابینہ کے وزیر اور مشیر اور فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان سب امریکا کی تابع داری کرنے کے لیے بے چین تھے ۔
اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تو اس کی تحقیقات بے نتیجہ رہیں لیکن سازش میں کابینہ چند ارکان کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا جو بعد میں وزیر اعظم اور سربراہ مملکت بنے جن میں ملک غلام محمد گورنر جنرل اور پھر صدر مملکت اور جنرل ایوب خان وزیر دفاع، وزیراعظم اور صدر مملکت بنے اور یہ سب 1951 سے 1958 کے دوران میں ہوا ۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان نے سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اختیار کی ۔ وزیر خارجہ سر ظفر اللہ نے منیلا میں منیلا پیکٹ پر کابینہ کی منظوری کے بغیر دستخط کیے اور اکتوبر 1954 میں جب ظفر اللہ منیلا سے دستخط کر کے واپس آئے تو اس وقت تک گورنر جنرل غلام محمد اسمبلی کو برخاست کر کے گھر بھیج چکے تھے اور ایک نئی کابینہ نے حلف اٹھا لیا تھا جس میں جنرل ایوب خان وزیر دفاع اور اسکندر مرزا باقاعدہ وزیر بن چکے تھے ۔
اس طرح 1954 سے 1958 تک پاکستان بڑی تیزی سے امریکا کی جانب جھکتا چلا گیا اور حتی کہ جب حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بنے تو انہوں نے نہر سویز کے مسئلے پر مصر کی حمایت نہیں تھی اور نہر سویز کو بین الاقوامی تحویل میں رکھنے کا مطالبہ کیا اور مصر کو نہر سویر قومی ملکیت میں لینے کا حق دینے سے انکار کیا ۔
پھر 1958 میں جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا اور سیاسی سرگرمیوں کو سختی سے کچلا تو اس عمل کو امریکا کی بھرپور حمایت حاصل رہی کیوں کہ انتخابات ہونے کے نتیجے میں نیشنل عوامی پارٹی اور جگتو فرنٹ جیت سکتے تھے ۔ اس طرح لیاقت علی سے شروع ہونے والا امریکی رومانس روز افروز ترقی کرتا گیا ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp