اس سال میلہ چراغاں کے لیے شالامار باغ کے دروازے کھلنے پر میرا خیال تھا کوئی صفدر میر کو ضرور یاد کرے گا لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی تو مجھے ہی کچھ لکھنے کی تحریک ہوئی، ان کے ذکر خیر کا موقع محل یہ ہے کہ ایوب خان کے دور میں میلہ چراغاں اور شالا مار باغ میں رشتہ و پیوند کی قدیم روایت کے خاتمے پر صفدر میر نے سرکاری عمال کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ خوش قسمتی سے اس معاملے پر ان کا نقطہ نظر کتابوں میں محفوظ ہے اور بطور سند ہمارے کام آرہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ہندوستان میں بنیاد پرستوں کے عزائم بروقت بھانپنے والے لکھاری
صفدر میر نے اپنے مضمون ’شاہ حسین اور اس کی شاعری‘ میں میلہ چراغاں کو لاہور کا سب سے بڑا ثقافتی اجتماع قرار دیا جس کی رونق ان کے خیال میں پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے گھٹ کر آدھی رہ گئی کیوں کہ اب ہندو اور سکھ اس میں شریک نہیں ہو سکتے تھے جبکہ پہلے ان کی بڑی تعداد اس میلے کا حصہ بنتی تھی۔
میلے کی رونق میں کمی کی دوسری بڑی وجہ شالا مار باغ میں عوام الناس کے داخلے پر پابندی تھی جس سے ان زائرین کی شب بسری اور آرام کا ٹھکانا چھن گیا۔
صفدر میر نے لکھا:
’پہلے یوں ہوا کرتا تھا کہ ایک ایک ہفتہ پہلے سے لاہور کے شہری، بلکہ دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے لوگ اپنے کنبوں قبیلوں سمیت شالامار کے وسیع و عریض تختوں پر اپنے بستر جما لیا کرتے تھے، یہ ہماری سیاسی غلامی کے زمانے کی بات ہے اب جب کہ ہمیں غیروں کے استعمار سے آزادی نصیب ہو چکی ہے ہمارے عوام کو اپنے ہی ملک کی شہری سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل نہیں رہا۔‘
وہ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ باغ کو لوگوں کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے بند کیا جاتا ہے کیوں کہ صفدر میر کی دانست میں 200 سے زیادہ برسوں سے تو شالامار باغ کو نقصان نہیں پہنچا تھا، تاریخی عمارتوں کی حالت عوام کے وہاں جانے سے دگرگوں نہیں ہوتی بلکہ اس کے اسباب اور ہوتے ہیں جن کی طرف صفدر میر نے سرکاری اہلکاروں پر طنز کرتے ہوئے کچھ یوں توجہ دلائی:
’اب جب کہ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے تاریخی عمارات کو عوام کی دست برد سے بچانے کا اتنا پکا انتظام کیا ہے، لاہور شہر کی بہت کم تاریخی عمارات کی حالت قابلِ رشک رہ گئی ہے، شہر کی ایک اور بہت شاندار عوامی سیرگاہ مقبرہ جہانگیر کا اس سلسلے میں ذکر کیا جاسکتا ہے جس کے چاروں طرف پچاس ساٹھ فٹ کے اندر بستیاں قائم ہو گئی ہیں بلکہ بعض لوگوں نے تو اس کی چار دیواری کے اوپر بھی مکان بنا لیے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں:قیوم نظر: اردو کی نظر سے کرکٹ دیکھنے والا شاعر
صفدر میر کا یہ مضمون ڈاکٹر سہیل احمد خان کی مرتب کردہ کتاب ’مقالات حلقہ اربابِ ذوق‘ میں شامل ہے جو 1990 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ 35 سال پرانی بات ہے، حال کا معاملہ یہ ہے کہ پنجابی کے معروف لکھاری اور استاد زاہد حسن کی لائقِ مطالعہ کتاب ’سرت سیہان‘ گزشتہ ماہ شائع ہوئی ہے۔ اس میں ایک مضمون ’خلقت گئی ادھوری (شاہ حسین دی حیاتی، فکر تے شاعری)‘ بھی شامل ہے۔ اس کا اختتام صفدر میر کے مضمون ’ڈگا تے اگ‘ کے اقتباس پر ہوتا ہے جو 1966 میں ’پنجابی ادب‘ میں شائع ہوا تھا، اس میں انگریز راج میں ’ذہین طبقے‘ کے خود کو اونچی مخلوق تصور کرکے عام آدمی سے نفرت کے رویے پر تنقید ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس سامراجی ورثے سے ہم پاکستان بننے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھڑا سکے۔
صفدر میر نے زاویہ نگاہ کی صراحت کے لیے میلہ چراغاں پر شالا مار باغ سے خلق خدا کو باہر رکھنے کے اقدام کی مثال دی ہے اور انتظامیہ کی منافقت ظاہر کرنے کے لیے اس نوٹس کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں یہ درج ہے کہ ’مرمت کی وجہ سے باغ 27 سے 29 مارچ تک عام لوگوں کے لیے بند رہے گا۔ اللہ کی شان پچھلے سال کی طرح اس دفعہ بھی میلہ چراغاں اور مرمت کی تاریخ ایک ہی مقرر ہوگئی ہے۔‘
صفدر میر کی تحریروں میں باغ اور عام آدمی کے میلے میں ربط ضبط ختم ہونے کا ذکر یوں آتا ہے جیسے کوئی وجود پر لگنے والے گہرے گھاؤ کی بات کررہا ہو جو مندمل ہونے میں نہ آرہا ہو۔ شاہ حسین کی ذات سے محبت اور میلہ چراغاں کی ثقافتی اہمیت کے صرف قلمی اعتراف تک وہ محدود نہیں رہتے تھے بلکہ اس میلے میں بنفس نفیس شرکت کرکے وہ عظیم صوفی اور بڑے ثقافتی مظہر سے اپنی وابستگی کا عملی ثبوت دیتے تھے۔
شاہ حسین اور میلہ چراغاں پر ہی موقوف نہیں صفدر میر کی زندگی کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کتابوں میں غرق رہنا، پنجابی، اردو اور انگریزی میں لکھنا، یہ سب اپنی جگہ لیکن عمل کی دنیا میں بھی وہ ہیٹے نہیں تھے۔
تقسیم سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر سراج الدین نے ڈرامے کو اس طرح پڑھایا سمجھایا کہ ان کے بقول ’بحیثیت ایک سماجی عامل کے ڈرامے کی قوت اور اثر انگیزی کا بھرپور
احساس ہوا، یہیں سے تھیٹر میں دلچسپی بڑھی۔ میں عموماً گورنمنٹ کالج کے ڈراموں میں حصہ لیا کرتا تھا۔‘
یہ بھی پڑھیں:لاہور کے سائیکل سواروں کی یاد میں
کالج کے زمانے میں ریڈیو ڈرامہ وسیلہ روزگار بن گیا، اس پس منظر کے ساتھ وہ لاہور سے بمبئی گئے تو وہاں انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن (اپٹا) سے بطور اداکار وابستگی نے شوق کو نیا رخ دیا اور اس میڈیم کے بارے میں انہیں بہت کچھ نیا جاننے کو ملا۔
ان دنوں پاک بھارت کشیدگی کا دور ہے تو اس میں بھی صفدر میر کی شخصیت بہت ریلیونٹ نظر آتی ہے کہ 1965 کی جنگ میں وہ نظم لکھنے پر ہی قانع نہیں رہے بلکہ ٹرک پر سوار ہو کر اسے لاؤڈ سپیکر پرمجمع عام کو سنایا بھی:
چلو واہگے کی سرحد پر
وطن پر وقت آیا ہے
وطن پر کٹ کے مر جانے کا یارو وقت آیا ہے
اس ایک نظم پر ہی وہ بس نہیں ہوئے اور ’سیالکوٹ کی فصیل‘ اور ’فائر بندی کی رات‘ کے عنوان سے بھی نظمیں کہیں جو ہنگامی ماحول میں لکھے جانے کے باوجود ادبی معیار پر بھی پوری اترتی ہیں۔
اس طرح انتظار حسین نے ’چراغوں کا دھواں‘ میں لکھا ہے کہ ایک زمانے میں میر انیس کے مرثیوں نے ان پر اتنا اثر کیا کہ وہ مجلسوں میں شریک ہوئے اور موچی دروازے میں زنجیر زن ماتمیوں کے ساتھ صبح عاشور کو ماتم بھی کیا۔
صفدر میر کی تحریروں میں میلہ چراغاں اور شالامار باغ کے سمبندھ کے تذکرے سے کئی دوسرے قصے بھی ذہن میں درانہ چلے آئے جن میں بسنت کا رنگ بھی شامل ہے۔
اس حوالے سے بات کرنے کے لیے میاں بشیر احمد سے موزوں شخصیت کون ہوگی جن کے پرکھوں کا باغبانپورہ اور شالامار باغ سے صدیوں پرانا رشتہ تھا۔ مغلوں کے زمانے سے باغ کا انتظام و انصرام باغبانپورہ کے اسی ممتاز خاندان کے سپرد تھا جس میں میاں بشیر احمد کے والد جسٹس شاہ دین ہمایوں اور سسر میاں محمد شفیع ایسے معروف لوگ بھی شامل تھے۔ ایوب خان نے اس خانوادے سے تعلق رکھنے والے معروف سیاستدان میاں افتخارالدین سے پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ کا ادارہ ہی نہیں چھینا جو پاکستان ٹائمز اور امروز جیسے معتبر اخبار شائع کرتا تھا بلکہ شالا مار باغ کی انتظامی ذمہ داریاں بھی ان سے چھین لیں، اس خبر کا اندراج تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے، ایک مثال ذرا دیکھیے ہم نے کہاں سے ڈھونڈ نکالی ہے۔
نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات اور دانشور امرتیا سین کی میاں افتخار الدین کے بیٹے عارف افتخار سے کیمبرج کے زمانے میں دوستی ہوئی، انہوں نے اپنی سوانح ’ہوم ان دی ورلڈ‘ میں یار عزیز کو بڑی محبت سے یاد کیا ہے اور انہیں کیمبرج میں اپنے زمانے کا بہترین مقرر قرار دیا ہے۔ 1963 میں وہ اپنے اس دوست کے ہاں لاہور میں مہمان رہے اور لاہور کی خوبصورتی کو اپنے اندر اتارا۔ شالا مار باغ کی خوبصورتی نے بھی انہیں مسحور کیا جسے انہوں نے کتاب میں دنیا کا عظیم ترین باغ لکھا ہے، امرتیا سین نے عارف افتخار کے خاندان کی شالامار باغ کی صدیوں تک نگہبانی کرنے کی روایت کا حوالہ بھی دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:لاہور کا لالہ جو کرکٹ کی تاریخ میں امر ہوگیا
بات ہم نے میاں بشیر احمد کے مضمون کی کرنی تھی لیکن بیچ میں رہوار قلم دوسری تفصیلات کی طرف چل پڑا سو اب اسی مضمون کی طرف مڑتے ہیں جس میں باغبانپورہ اور شالامار باغ کا خوب تذکرہ ہے، ایک تلخ یاد جو ملکہ معظمہ کے مرنے سے جڑی تھی اس میں میاں بشیر ہمیں ان لفظوں میں شریک کرتے ہیں:
’ملکہ مری 22 جنوری 1901 کو اور مادھو لال حسین (باغبانپورہ) میں پولیس نے آکر اپنے ہنٹروں سے بسنت کے میلے کو درہم برہم کردیا تو ہم نے اس ملکہ کے حق میں کوئی نیک کلمے نہ کہے، اسے مرنا تھا تو کم از کم کسی کام کے دن مرتی کہ ہمیں چھٹی ہی مل جاتی نہ یہ کہ ہماری اچھی بھلی چھٹی اور بھرے میلے کے رنگ میں اس نے بھنگ ڈالی دی، وہ ملکہ اور وہ پولیس اس دن کے بعد سے میری نظروں سے گر گئی، اس وقت میری عمر قریباً 8 برس کی تھی۔‘
اس واقعے سے رعایا اور سلطنت کے تعلق کی نوعیت بھی سمجھی جاسکتی ہے لیکن ستم ظریفی تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد اپنی پولیس نے بھی عوام پر ظلم ہی ڈھائے ہیں:
’رات گزری تھی کہ پھر رات آئی‘
اب ہم آپ کو باغبانپورہ کے ایک اور معزز ساکن سے ملواتے ہیں، گربچن چندن نے انڈیا میں اردو صحافت کی تاریخ پر وقیع کام کیا ہے، برصغیر میں اردو کے پہلے اخبار ’جام جہاں نما‘ پر ان کی تحقیقی تصنیف، علمی و صحافتی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی، یہ بات چند سال پہلے ہمارے علم میں آئی کہ وہ تقسیم سے پہلے باغبانپورہ کے مکین تھے اور میاں افتخار الدین کے گھرانے سے ان کے خاندانی مراسم تھے، اپنے آبائی علاقے باغبانپورہ کے بارے میں ان کی یادداشتیں علمی و ادبی جریدے ’ارتقا‘ (2015) میں شائع ہوئیں تو اس میں میلہ چراغاں اور شالا مار باغ کا ذکر تو آنا ہی تھا:
’اس قصبے (باغبانپورہ) کا ایک اور امتیاز میلہ چراغاں تھا جو بسنت کے تہوار پر ہر سال اسی تاریخی باغ کے نواح میں لگتا تھا، اس میں دور ونزدیک کے دیہات سے ہزاروں لوگ آتے تھے جن میں ہندو، مسلمان، سکھ سب شامل ہوتے تھے۔ وہ اس کے نزدیک ہی واقع مادھو لال حسین کی درگاہ کی زیارت کرتے تھے اور وہاں چراغ جلا جلا کر منتیں مانتے تھے، یہ میلہ دو تین دن جاری رہتا اور ان ایام میں شالیمار باغ کے اردگرد ہنگاموں کی ایک نئی دنیا آباد ہو جاتی۔ بھیڑ اور گہما گہمی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بیسیوں بچے اپنے والدین سے بچھڑ جاتے تھے اور کہیں شام کو جا کر پولیس کے خصوصی کیمپوں میں ملتے تھے۔‘
اب آپ کو نان فکشن سے فکشن کی دنیا میں لیے چلتے ہیں۔
حمید شیخ انگریزی کے جانے مانے صحافی تھے، ان کے ناول ’گینڈا پہلوان‘ کا محل وقوع شمالی لاہور کا علاقہ ہے جس کے کچے پکے رستوں اور دھول اڑاتی ویران سڑکوں پر بہار کا سماں اور بھیڑ بھڑکا بھی سال بھر میں انہی دنوں میں ہوتا تھا جب مادھو لال حسین کے مزار اور بسنت کا سنجوگ ہو جاتا :
’سارا سال ان کچے راستوں پر صرف شہر کی گندگی سے لدی بیل گاڑیاں چلتی نظر آتی تھیں جو شہر کو تازہ سبزی بہم پہنچانے والے کھیتوں میں کھاد لا لا کر ڈالتی تھیں، بسنت کے بسنت یہ راستے یکدم جاگ اٹھتے تھے، لوگ پیلی پیلی پگڑیاں باندھے، ہاتھوں میں پتنگ اور رنگ برنگی ڈور کی ریل لیے، اسی راستے مادھو لال حسین کی درگاہ کو جاتے تھے۔ یہاں اس روز خوانچے والے بھی آ بیٹھتے تھے اور درجنوں فقیر، کوئی لولا، کوئی لنگڑا، کوئی گاتا، کوئی روتا، کوئی محض اپنی وضع قطع سے راہگیروں کی توجہ پر ڈاکے ڈالتا، غرض کہ ایک دن کے لیے یہ راستہ انارکلی بازار بن جاتا اور پھر وہی کچے کا کچا راستہ۔‘
یہ بھی پڑھیں:اجیت کور: لاہور کی سڑکوں پر جن کی یادوں کا سفر جاری رہا
صاحبو! مادھو لال حسین، میلہ چراغاں اور بسنت پر تو دفتر کے دفتر لکھے جا سکتے ہیں لیکن بات نے کہیں تو جا کر سمٹنا ہوتا ہے تو اس کے لیے ہم ٹھیٹ لاہوریے میرزا ادیب کے ایک بیان سے مدد لیں گے جس کے ڈانڈے صفدر میر کے اس مؤقف سے جاملتے ہیں جس کی بنیاد پر اس مضمون کا ڈول ڈالا گیا ہے، میرزا ادیب کی آپ بیتی ’مٹی کا دیا‘ سے اقتباس نقل کرنے سے پہلے دفعتاً یہ بات ذہن میں آئی کہ ’مٹی کا دیا‘ تو شاہ حسین کے مزار سے وابستہ وہ استعارہ ہے جس کی وجہ سے میلہ چراغاں کو اپنا نام حاصل ہوا ہے۔ یہاں چراغ سے چراغ جلتا ہے، اس کی منظر کشی شاہ حسین اور میلہ چراغاں کے عاشقِ صادق، یونس ادیب نے ’میرا شہر لاہور‘ میں بڑے خوبصورت پیرائے میں کی ہے:
’چراغوں کی رات ہزاروں دئیوں کی لاٹ ایک لمبو بن کر آسمان کی طرف اٹھتی ہے، یہ چراغاں رفتہ رفتہ ایک بہت بڑے الاؤ میں بدل جاتا ہے اور جیسے جیسے الاؤ بڑھتا جاتا ہے میلے کا سماں رنگین اور پرجوش ہو جاتا ہے۔‘
اب آپ میرزا ادیب کا بیان دیکھ لیجیے:
’لاہور کی انتظامیہ نے میلہ منانے والوں کے لیے شالا مار باغ کا دروازہ بند کردیا ہے اور اب شالا مار باغ صرف غیر ملکی بڑوں کے لیے وقف ہو کر رہ گیا ہے، اس سے انتظامیہ نے شالا مار باغ کے حسن کو تو محفوظ کرلیا ہے مگر میلے کے حسن کو داغدار کر دیا ہے کیونکہ میلہ عمارت کے باہر نہیں اندر لگتا تھا۔‘
اور جاتے جاتے شاہ حسین کی یہ کافی ملاحظہ کیجیے:
ربا! میرے حال دا محرم توں
اندر توں ہیں، باہر توں ہیں، روم روم وچ توں
توں ہی تانا، توں ہی بانا، سبھ کجھ میرا توں
کہے حسین فقیر نمانا، میں ناہیں سبھ توں
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔