اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کراچی باعر ایسوسی ایشن کے وکیل فیصل صدیقی کا مؤقف تھا کہ اس کیس میں سینیارٹی کا مسئلہ بنیادی معاملہ ہے، ٹرانسفر ہوئے ججز کی سینیارٹی سب سے نیچے سے شروع ہونی چاہیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی۔
فیصل صدیقی کا مؤقف تھا کہ ٹرانسفر ہوئے 2 ججز سینیارٹی لسٹ میں سب سے نیچے ہیں، جسٹس سرفراز ڈوگر 8 جون 2015 کو ایڈیشنل جج بنے جبکہ جسٹس سومرو نے 14 اپریل 2023 کو حلف لیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:ججز ٹرانسفر اورسینیارٹی کیس: ججز ٹرانسفر میں تو فائلوں کو راکٹ لگا دیے گئے، وکیل حامد خان کا استدلال
فیصل صدیقی کے مطابق جسٹس محمد آصف کا کیس بڑا دلچسپ ہے، جنہوں نے نے 20 جنوری 2025 کو حلف لیا تھا، جسٹس محمد آصف اس وقت تک ایڈیشنل جج ہیں، عدالتی استفسار پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ جسٹس محسن اختر کیانی نے 22 دسمبر 2015 کو حلف لیا تھا۔
فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان سے سینیارٹی کا معاملہ ڈسکس ہی نہیں کیا گیا، ریکارڈ یہ بتا رہا ہے کہ چیف جسٹس سے سینیارٹی کا معاملہ چھپایا گیا۔
وکیل ادریس اشرف کا کہنا تھا کہ ججز کا ٹرانسفر مستقل نہیں عبوری ہوتا ہے، یہ اپنی نوعیت کا منفرد مقدمہ ہے، اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ میں دو طرح کے ججز ہیں، تبادلہ پر آئے ججز کو اضافی الاؤنسز ملتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ججز سینیارٹی کیس: تبادلے پر آیا جج نیا حلف لے گا اس پر آئین خاموش ہے، جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ان کی رائے میں تو تبادلہ پر آئے ججز کو کوئی اضافی الاؤنس نہیں ملتا، اگر ملتا ہے تو دکھا دیں، ماضی میں تبادلے کی معیاد تھی، جسے 18 ویں آئینی ترمیم میں ختم کردیا گیا ہے، کیا آئین سازوں کو معیاد دوبارہ شامل کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ بھارت کو میں جج کے تبادلہ پر رضامندی بھی نہیں لی جاتی، جس پر وکیل ادریس اشرف کا مؤقف تھا کہ 2 سال سے کم عرصے کے تبادلے پر رضامندی ضروری نہیں، قانون کے مطابق خالی سیٹ پر تقرری کی جاسکتی ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ جب جج کی ویکنسی خالی نہیں ہوگی تو جج کا تبادلہ کیسے ہوگا، اب تو جج کی تقرری کا اختیار جوڈیشل کمیشن کا ہے۔
جسٹس شاہد بلال حسن نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر اعتراض کرتے ہوئے ادریس اشرف سے دریافت کیا کہ درخواست کا پیراگراف نمبر 4 پڑھیں آپ نے لکھا کیا ہے، کیا ملکی تاریخ میں کسی سیاسی لیڈر نے کبھی ایسی درخواست دائر کی ہے۔
مزید پڑھیں: ججز ٹرانسفرز اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کے لیے کیے گئے، منیر اے ملک کا سپریم کورٹ میں مؤقف
وکیل ادریس اشرف نے درخواست پڑھتے ہوئے بتایا کہ دباؤ قبول نہ کرنے پر ججز کو نشانہ بنایا گیا، یہ بھی لکھا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو ریلیف دینے پر ججز کو نشانہ بنایا گیا، جس پر جسٹس شاہد بلال حسن بولے؛ میرا دل تو اس درخواست کو جرمانے کیساتھ خارج کرنے کا ہے، لیکن اس طرف نہیں جا رہا۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اس قسم کی درخواست سے تو ہائیکورٹ کے ججز کو بھی شرمندہ کیا گیا ہے، ججز نے تو نہیں کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے فیصلے کرنے پر انہیں نشانہ بنایا گیا، میرے حوالے سے یہ الفاظ استعمال ہوتے تو مجھے بھی شرمندگی ہوتی۔
ادریس اشرف نے مؤقف اختیار کیا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست میں سینیئر وکیل شعیب شاہین ہیں، میں نے راجہ مقسط کی جانب سے دائر درخواست لکھی ہے، میری تحریر کردہ درخواست میں ایسے الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا، اس موقع پر جسٹس صلاح الدین پنہور بولے؛ میرا خیال ہے آپ دلائل مکمل کر چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: ججز تبادلہ اور سنیارٹی کیس، 5 ججز نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے ٹرانسفر اور سینیارٹی کے خلاف درخواستوں پر سماعت 23 مئی تک ملتوی کردی گئی، کراچی بار کے وکیل فیصل صدیقی آئندہ سماعت پر اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔