مخصوص نشستوں کے کیس کی لائیو اسٹریمنگ کا حکم، آئینی بینچ کی تشکیل پر اعتراضات مسترد

جمعرات 22 مئی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی متفرق درخواستوں پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت براہ راست نشتر کرنے سے متعلق درخواست منظور کرلی تاہم بینچ کی تشکیل پر اعتراض سے متعلق تینوں درخواستیں مسترد کردیں۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست کی سماعت پہلے کرنے کی درخواست بھی مسترد کردی، تاہم عدالت نے لائیو اسٹریمنگ کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کو لائیو اسٹریمنگ کے انتظامات کرنے کا حکم دیدیا۔

مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پرنظرثانی کی درخواستوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کی،

یہ بھی پڑھیں:مخصوص نشستوں کا نظرثانی کیس: 2 ججز الگ ہوگئے، نظرثانی کے لیے ججز کی تعداد یکساں ہونا ضروری ہے، سپریم کورٹ

12 جولائی کے فیصلے کی متاثرہ خواتین ارکان اسمبلی کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 191 اے اور پریکٹس پروسیجر ایکٹ کے ہوتے ہوئے اس بینچ پر 1980 کے رولز کا اطلاق نہیں ہوتا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ آپ بتائیں سپریم کورٹ کے 1980 کے کونسے رولز نئی آئینی ترمیم سے مطابقت نہیں رکھتے۔

مخدوم علی خان کا کہناتھا کہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی حد تک 1980 کے رولز مطابقت نہیں رکھتے، نئی آئینی ترمیم میں آئینی بینچ کے دائرہ اختیار کا تعین کیا گیا ہے،1980 کے رولز کے تحت نظرثانی پر سماعت پرانا بینچ کیا کرتا تھا، اب 26 ویں ترمیم کے بعد آئینی تشریح کے مقدمات کی نظرثانی آئینی بینچ کرے گا۔

مخدوم علی خان کے مطابق اس بینچ میں ججز کی تعداد کے حوالے سے اعتراض کیا، میری نظر میں یہ 11 نہیں 13 رکنی بینچ ہے، اس 13 رکنی بینچ میں سے 7 ججز کی اکثریت نظرثانی پر فیصلہ کرے گی، اس کیس کی براہ راست نشریات کے حوالے سے درخواست دائر کی گئی، میری رائے میں یہ اس عدالت کا فیصلہ ہوگا کہ براہ راست نشریات ہونگی یا نہیں۔

مزید پڑھیں:مخصوص نشستوں کا کیس: کیا 2 ججوں کو واپس لانے کے لیے کوئی دعوت نامہ بھیجیں؟ جسٹس محمد علی مظہر

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اگر عدالت براہ راست نشریات کا فیصلہ کرے بھی تو کوئی اعتراض نہیں، دوسری درخواست تھی کہ 26 ویں ترمیم کے فیصلے تک اس کیس کو ملتوی کیا جائے، کونسا کیس کب لگنا ہے یہ طے کرنا اس عدالت کا اختیار ہے، کسی کی خواہش نہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ فرض کریں اگر عدالت یہ درخواست منظور کرکے کیس کی سماعت ملتوی کرتی ہے، تو پھر یہ آئینی بینچ 26 ویں ترمیم کے فیصلے تک دیگر کوئی درخواستیں بھی نہیں سن سکے گا، کل کو دیگر کیسز کی درخواست گزار بھی اسی خواہش کا اظہار کریں گے۔

وکیل مخدوم علی خان نے سنی اتحاد کونسل کے اعتراضات پر دلائل مکمل کرلیے، جس پر عدالت نے متفرق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر تے ہوئے کیس کی سماعت میں 10 منٹ کا وقفہ کردیا گیا، سنی اتحاد کونسل نے بینچ پر اعتراضات اٹھائے تھے۔

مزید پڑھیں:مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی کیس، 2 ججز کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

آئینی بینچ کے ارکان جج مشاورت کے لیے اٹھنے لگے تو سنی اتحاف کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دریافت کیا کہ کیا 26 ویں آئینی ترمیم کے جواب جواب الجواب کا حق ختم کردیا گیا ہے، آپ نے درخواست دی اس پر مخدوم علی خان نے دلائل دیے، آپ کیا جواب الجواب کرنا چاہتے ہیں۔

جس پر فیصل صدیقی بولے؛ اگر 26 ویں ترمیم کے بعد جواب الجواب ختم ہوگیا ہے تو ہمیں بتا دیا جائے، میں خواجہ حارث جتنا وقت تو نہیں لوں گا مگر جواب الجواب میں مناسب وقت چاہیے، اس موقع پر مخدوم علی خان بولے؛ سنی اتحاد کونسل کا اس کیس میں حق دعویٰ نہیں بنتا، چلتے ہوئے کیس میں اعتراضات کی درخواستیں دائر کی گئیں۔

جس پر وکیل فیصل صدیقی نے اونچی آواز میں کہا کہ پھر ہمیں کیوں اس کیس میں فریق بنایا گیا، جسٹس امین الدین خان بولے؛ آپ ایک سینیئر وکیل ہیں آپ کا رویہ ناقابل قبول ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مخدوم علی خان سے نہیں بلکہ ججوں سے مخاطب ہوں۔

مزید پڑھیں:مخصوص نشستوں کا معاملہ: جسٹس عائشہ ملک کا چیف جسٹس کے نام شکایتی خط

جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ چلیں ہم آپ کو فئیر ٹرائل کا موقع دیتے ہیں، مخصوص نشستوں پر نظرثانی کی درخواستوں پر سماعت 26 مئی تک ملتوی کردی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp