زمبابوے کے نوجوان آل راؤنڈر سکندر رضا نے اپنی محنت اور عزم کی مثال قائم کی ہے جس کی کرکٹ شائقین نے بھرپور ستائش کی ہے۔
پاکستانی نژاد زمبابوین کرکٹر نے اپنے ملک زمبابوے کی نمائندگی کرتے ہوئے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کے بعد ایک طویل اور تھکا دینے والا سفر کرکے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 10 کے فائنل میں اپنی ٹیم لاہور قلندرز کی نمائندگی اور انہیں چیمپیئن بنانے کے لیے میچ سے 10 منٹ پہلے لاہور پہنچے۔
یہ بھی پڑھیے: سکندر رضا نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے جبڑوں سے فتح چھین لی
نوٹنگم میں ٹیسٹ میچ ختم ہوتے ہوئے ہی سکندر رضا ایک دوست کی کار سے برمنگھم ایئرپورٹ پہنچے۔ وہاں انہیں بزنس کلاس کی سیٹ نہ مل سکی تو انہوں نے اکانومی کلاس میں ہی دبئی کے لیے سفر کا آغاز کیا۔ انہوں نے دبئی سے ابوظہبی پہنچ کر فلائٹ تبدیل کی اور لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔
جب ان کی ٹیم کے کپتان شاہین شاہ آفریدی نے ٹاس کے موقع پر بتایا کہ سکندر رضا ٹیم میں شامل ہیں تب وہ اسٹیڈیم پہنچے ہی نہیں تھے اور لاہور ایئرپورٹ سے اسٹیڈیم کی طرف روانہ ہوئے تھے۔
Sikandar Raza touches down straight from England to don the Lahore Qalandars jersey in the grand PSL finale. A warrior’s arrival in Lahore, just in time! pic.twitter.com/dyHkU7mswV
— Lahore Qalandars (@lahoreqalandars) May 25, 2025
وہ میچ سے 10 منٹ قبل ہی اسٹیڈیم پہنچے اور فائنل میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے 6 چوکوں سے اپنی ٹیم کو جیت دلائی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد ٹیم کے ساتھ ہونا اور اپنی ذمہ داری نبھانا تھا، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
سکندر رضا نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ روز ٹیسٹ کے دوران 25 اوورز بولنگ اور 20 اوورز بیٹنگ کی، دبئی میں ناشتہ، ابو ظہبی میں لنچ اور لاہور میں ڈنر کیا، ایک پیشہ ور کرکٹر کی زندگی یہ ہوتی ہے اور مجھے ایسی زندگی جینے پر خوشی محسوس ہورہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: زمبابوے میں دلوں پر راج کرنے والے پاکستانی نژاد کرکٹر سکندر رضا کون ہیں؟
انہیں ان دنوں ایک طرف اپنی زمبابوے ٹیم کی طرف سے انگلینڈ کیخلاف ذمہ داریاں نبھانی تھیں تو دوسری طرف پی ایس ایل میں اپنی ٹیم لاہور قلندرز کا ساتھ دینا تھا اس لیے وہ ایونٹ کے دوران مسلسل سفر میں رہے۔ اس سے قبل بھی انہوں نے ناک آؤٹ مرحلے میں قلندرز کو فتح یاب کرنے انگلینڈ سے پاکستان کا سفر کیا تھا اور میچ کے بعد واپس چلے گئے تھے۔
کرکٹ شائقین کا کہنا ہے کہ ان کی کارکردگی اور عزم نے ثابت کیا کہ محنت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں، مشکل حالات میں بھی ہمت اور عزم سے سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ان کے مداحوں نے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی یہ جدوجہد اور قربانی پاکستان اور دنیا بھر کے کرکٹرز کے لیے ایک مثال ہے۔