سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل کے ریمارکس

پیر 26 مئی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کیخلاف دائر نظرثانی کی انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے کی، عدالتی کارروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست دکھائی گئی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں پر کیسے دعویٰ کیا، انہیں مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں، پارلیمنٹ میں آنے والی جماعت میں آزاد امیدوار شامل ہوسکتے ہیں، جو سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں کیسے آزاد لوگ شامل ہوسکتے ہیں۔

مخدوم علی خان کا مؤقف تھا کہ سنی اتحاد کونسل کے مطابق آزاد امیدوار ان کی ساتھ شامل ہوگئے تھے، عدالتی استفسار پر انہوں نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، کونسل کے چیئرمین نے بھی خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا جبکہ سنی اتحاد کونسل نے جنرل الیکشن لڑا ہی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی کی درخواستیں کثرت رائے سے منظور، 2 ججوں کا اختلاف

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل پارلیمانی پارٹی بن سکتی تھی لیکن مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ آزاد ارکان نے جیتی ہوئی پارٹی میں شامل ہونا تھا، مخدوم علی خان نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل کو متفقہ طور پر مسترد کیا گیا۔

مخدوم علی خان نے بتایا کہ مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کو ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا، ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے قبل کوئی نوٹس نہیں کیا گیا، جس پر جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ عدالت نے الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دیا تھا۔

وکیل مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت کے سامنے سنی اتحاد کونسل آرٹیکل 185/3 میں آئے تھے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن تھا، مخدوم علی خان نے اصرار کیا کہ نوٹیفکیشن سے اگر کوئی متاثرہ ہوتا تھا تو عدالت کو نوٹس کرنا چاہیے تھا۔

مزید پڑھیں:سپریم کورٹ کو عدالتی ریفارمز کا معلوم ہونے پر مخصوص نشستوں کا فیصلہ آگیا، جو براہِ راست مداخلت تھی، بلاول بھٹو

مخدوم علی خان کے مطابق عدالتی فیصلے میں آرٹیکل 225 کا ذکر تک نہیں ہے، آرٹیکل 225 کے تحت کسی الیکشن پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ آرٹیکل 225 کا اس کیس میں اطلاق کیسے ہوتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ مخصوص نشستوں کا تھا، جو متناسب نمائندگی پر الاٹ ہوتی ہے، مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا کہ مخصوص نشستوں کی فہرستیں الیکشن سے قبل جمع ہوتی ہیں، کاغذات نامزدگی پر غلطی پر معاملہ ٹریبونل کے سامنے جاتا ہے۔

اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل بولے، اگر آپکی دلیل مان لیں تو پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں تھا، جس پر مخدوم علی خان کا مؤقف تھا کہ اس وقت تک مخصوص ارکان کے نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوئے تھے، عدالتی فیصلہ موجود ہیں کہ آئین و قانون سے برعکس فیصلہ ناقص ہوگا۔

مزید پڑھیں:مخصوص نشستوں سے متعلق وضاحتی فیصلہ، سپریم کورٹ کی الیکشن کمیشن کو سنگین وارننگ

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ عدالت کی ذمہ داری ہے اس غلطی کو درست کیا جائے، جسٹس جمال خان مندوخیل نےدریافت کیا کہ اگر اکثریتی ججز یہ سمجھیں کہ فیصلہ درست ہے، اگر ایسی صورتحال بنے تو کیا ہوگا، جس پر مخدوم علی خان بولے؛ ایسی صورت میں نظر ثانی مسترد ہو جائے گی۔

جسٹس شاہد بلال نے دریافت کیا کہکیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق تھی، کیا جو جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں دی جاسکتی ہیں، وکیل مخدوم علی خان کا مؤقف تھا کہ جو سیاسی جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں نہیں مل سکتیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا تھا پی ٹی آئی کیس میں فریق نہیں تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے کردار کو بھی ہم نے اس وقت دیکھنا تھا، میرے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تھی، نشستیں دینا نہ دینا اور مسئلہ ہے الیکشن کمیشن کا کردار بھی دیکھنا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: مخصوص نشستیں کیس، لائیو نشریات اور بینچ پر اعتراضات زیر بحث

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ان کے فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا ڈیکلیئر کرکے نشستیں دینے کا کہا گیا تھا، کوئی فارمولا نہیں تھا کہ درمیان کا راستہ چنا جائے، میں نے ساری رات جاگ کر دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیا، جس کے مطابق پارٹی سرٹیفکیٹ اور پارٹی وابستگی کے خانے میں 39 لوگوں نے پی ٹی آئی لکھا۔

جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ یہ ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں تھا، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے بتایا کہ یہ ریکارڈ عدالت کی جانب سے الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا، مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا ڈیکلیئر کیا گیا جبکہ 41 نمائندوں کو وقت دیا گیا کہ وہ 15 روز میں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس نعیم افغان نے اکثریتی فیصلے سے متعلق لکھا کہ آئین کو دوبارہ تحریر نہیں کیا جاسکتا، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی لکھا کہ ٹائم لائن کی قانونی شرائط پوری کرنا لازمی ہے۔

مزید پڑھیں:ججز تبادلہ کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان نے اہم سوالات اٹھادیے

مخدوم علی خان کے مطابق پی ٹی آئی اس کیس میں فریق نہیں تھی، دوران سماعت متفرق درخواست کے ذریعے فریق بنی، جس میں انہوں نے مؤقف اپنایا کہ وہ صرف عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔

مخدوم علی خان نے بتایا کہ اپنے اقلیتی فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس عدالت میں درخواست دائر نہیں کی، انہوں نے لکھا کہ دوران سماعت پی ٹی آئی نے فریق ثالث کے طور پر معاونت کی درخواست دی، نشستیں حاصل کرنے کی درخواست دائر نہیں کی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ مخدوم صاحب سنی اتحاد کونسل نے کوئی نشست نہیں جیتی تھی، جس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ وہ نشست نہیں جیتے تھے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں وجوہات لکھی گئی ہیں کہ پی آئی فریق نہیں تھی تو کیسے انہیں نشستیں دی گئیں۔

مزید پڑھیں:سپریم کورٹ: جج کا تبادلہ محض ایگزیکٹو ایکشن نہیں ہو سکتا، منیر اے ملک

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اکثریتی تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا کہ یہ عدالت مکمل انصاف کا اختیار کرتے ہوئے نشتیں پی ٹی آئی کو دیتی ہے، اسی وجہ سے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے لکھا کہ تحریک انصاف ہمارے سامنے فریق نہیں۔

جسٹس جمال خان  مندوخیل کا کہنا تھا کہ ان کے مطابق الیکشن کے دوران پریزائیڈنگ افسران نے آئین کے تحت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی، ہمارے سامنے آئی اپیل انتخابات میں غلطیوں کا تسلسل تھی، ہم نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ لوگوں کو حق رائے دہی سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کوئی ہمارے سامنے ہو یا نہیں پریزائیڈنگ افسران کی غلطی عوام کو کیسے دی جاسکتی ہے، پریزائیڈنگ افسران نے فارم 33 درست طریقے سے نہیں بنائے، آئین کے آرٹیکل 185 میں سپریم کورٹ  کا دائرہ اختیار کیا ہے۔

مزید پڑھیں: ججزکے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ بارکا بھی سپریم کورٹ سے رجوع، جسٹس ڈوگر کی تعیناتی کالعدم قرار دینے کا مطالبہ

مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ عدالت ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کے دائرہ اختیار میں تھی، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا کیس بنیادی دائرہ اختیار جو کہ 184/3 کا ہے میں نہیں سنا، جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ عدالت مکمل انصاف کا اختیار کس حد تک استعمال کر سکتی ہے۔

مخدوم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ مخدوم صاحب مجھے سمجھنے میں مسئلہ آرہا ہے، سنی اتحاد کونسل تو ایک نشست بھی نہیں جیت سکی تھی، سنی اتحاد کے چیئرمین حامد رضا نے تو خود اپنی جماعت سے الیکشن نہیں لڑا، تحریک انصاف تو فریق بھی نہیں تھی پھر کیسے نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں۔

اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ انتخابی نشان نہ ہونے سے سیاسی جماعت ختم نہیں ہوتی، سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑتی امیدوار لڑتے ہیں، انتخابی نشان عوام کی آگاہی کے لیے ہوتا ہے، انتخابی نشان نہ ہونے سے کسی کو انتخابات سے نہیں روکا جاسکتا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف کیس غیر موثر ہونے کی بنیاد پر نمٹادیا

جسٹس جمال مندوخیل کے مطابق سنی اتحاد کونسل کے بجائے آزاد امیدوار اگر پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا، سنی اتحاد کونسل اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتی تو پھر بھی مسئلہ نہ ہوتا۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اکثریتی فیصلے میں مکمل انصاف کیساتھ نظریہ آئینی وفاداری بھی استعمال کیا گیا، آئین سے وفاداری کے نظریہ کی بات جذباتی لگتی ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی کے دریافت کرنے پر مکدوم علی خان نے بتایا کہ  پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ یا الیکشن کمیشن میں نوٹیفکیشن چیلنج نہیں کیے تھے۔

وکیل مخدوم علی خان کے مطابق مخصوص نشستوں کے اکثریتی فیصلے میں آئین کو دوبارہ تحریر کیا گیا، نظرثانی درخواستیں منظور کی جائیں، نظرثانی کیس میں عدالت اپنی رائے تبدیل کر سکتی ہے، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ کیا میں مخصوص نشستوں کے کیس کا اپنا فیصلہ بدل سکتا ہوں، جس پر مخدوم علی کا کہنا تھا کہ وہ بالکل اپنی رائے بدل سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں نئے تعینات ہونے والے ججز کون ہیں؟

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پٹھان کی ایک زبان ہوتی ہے، جس پر مخدوم علی کا کہنا تھا کہ زبان ایک ہوتی ہے مگر رائے تو بدل سکتے ہیں، وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن اپنے تحریری دلائل جمع کرا چکا ہے۔

مسلم لیگ ن کے وکیل نے بتایا کہ انہوں نے بھی تحریری دلائل جمع کرا دیے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ کل تحریری دلائل جمع کرا دیں گے، اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی بولے؛ تحریری جوابات جمع کرا کے یہ جواب الجواب کا حق ختم کر چکے ہیں۔

اس موقع الیکشن کمیشن کے وکیل کا مؤقف تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو کمیشن جواب الجواب دےگا، جس پر آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ یہ عدالت نے طے کرنا ہے کہ جواب الجواب کا حق دینا ہے یا نہیں، کل سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی دلائل دیں گے۔

مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp