مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف دائر نظرثانی کی انٹرا کورٹ اپیلیں باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرلی گئی ہیں، سپریم کورٹ کے 13 ججوں پر مشتمل لارجر بینچ نے اکثریت کے ساتھ فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی ہے۔
بینچ میں شامل جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اختلاف کرتے ہوئے درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیں، تاہم سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے مطابق مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی اسی کیس کے ساتھ سنی جائے گی۔
سپریم کورٹ کے پی ٹی آئی کے حق میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ نظرثانی اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی لارجر بینچ نے کی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان بینچ کا حصہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مخصوص نشستوں کا معاملہ، سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر
جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق، جسٹس باقر نجفی بینچ میں شامل ہیں، سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ ن کے وکیل حارث عظمت روسٹرم پر آگئے، ان کا مؤقف تھا کہ مخصوص نشستیں ایک ایسی جماعت کو دی گئیں جو کیس میں فریق نہیں تھی۔
جس پر جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ اس نکتے کا جواب فیصلے میں دیا جا چکا ہے، آپ کی نظرثانی کی بنیاد کیا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے مطابق عدالت کے سامنے آراو کا آرڈر اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود تھا۔
مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی کی انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ وہ نظر ثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں لیکن نظر ثانی کے گراؤنڈز نہیں بتا رہے۔
مسلم لیگ ن کے وکیل حارث عظمت کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ جو باتیں آپ بتا رہے ہمیں وہ زمانہ طالب علمی سے معلوم ہیں، کیا اب آپ سپریم کورٹ کو سمجھائیں گے، آپ بار بار ایک سیاسی جماعت کا نام لے رہے ہیں اسے چھوڑ دیں۔
جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا، آپ ہمیں بتائیں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے، آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کے دائرہ اختیار پر دلائل دیں اور آپ اس فیصلے سے کیسے متاثر ہیں پہلے یہ بتاٸیں۔
حارث عظمت نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وکلا کی فوج نے بھی ان آرڈرز کو چیلنج نہیں کیا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ کیا ہم ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں، کیا سپریم کورٹ کے نوٹس میں ایک چیز آئی تو اسے جانے دیتے۔
مزید پڑھیں:مخصوص نشستوں سے متعلق وضاحتی فیصلہ، سپریم کورٹ کی الیکشن کمیشن کو سنگین وارننگ
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ عدالت نے سارے نکات تفصیل سے سن کر فیصلہ دیا تھا، جسٹس عقیل عباسی بولے؛ آپ نظر ثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں لیکن نظر ثانی کے گراؤنڈز نہیں بتا رہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی دائر ہے، پی ٹی آئی کے وکیل رہنما سلمان اکرم راجہ بولے؛ توہین عدالت کی درخواست آج لگی ہوئی ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا ہے، ہاں یا نہ میں اس سوال کا جواب دیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن بولے؛ ہم نے ایک پیرااگراف کی حد تک عمل کیا ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے دریافت کیا کہ کیا یہ آپ کی منشا مرضی کی بات ہے کہ کس پیراگراف پر عمل کریں گے، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ کیس کو چھوڑیں یہ آپ سپریم کورٹ کو کہاں لے جا رہے ہیں، کل کسی کو پھانسی کی سزا دیں تو کیا وہ کہے گا بس سر تک پھندا ڈال کر چھوڑ دیا۔
مزید پڑھیں:پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ انہیں دائر کردہ پٹیشن کے قابل سماعت ہونے سے متعلق ایک سوال ہے، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ کیخلاف توہین عدالت کی درخواست اٹھا لیں تو کیا آپ اس کیس میں دلائل دے سکیں گے۔