عمران سیریز کا اختتام

پیر 26 مئی 2025
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

26 مئی کی ایک شام کا اداس لمحہ تھا، جب ٹیبل لیمپ بجھا کر نظریں چھت کی طرف اٹھائیں تو لگا جیسے ایک کہانی ختم ہوئی ہو۔ وہ کہانی جو میری اپنی نہ تھی، لیکن لگتا تھا جیسے وہ میرے اندر سے نکلی ہو۔ یہ ’مظہر کلیم ایم اے‘ کی لکھی کوئی تازہ کہانی نہیں تھی، بلکہ ان کے قلم کی آخری جنبش کا احساس تھا۔ وہ جنبش جو کئی عشروں تک پاکستان کے بچوں، نوجوانوں اور والدین کی ذہنوں کو مہمیز دیتی رہی۔

ملتان کی قدیم گلیاں، جہاں مٹی اور کتابوں کی خوشبو ہوا میں گھل مل جاتی ہے، وہیں 22 جولائی 1942 کو جنم لیا۔ اصل نام مظہر نواز خان تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحافت، وکالت اور ادبیات کے میدان میں قدم رکھا۔ 1970 کی دہائی میں ریڈیو پاکستان ملتان سے بطور اسکرپٹ رائٹر وابستہ ہوئے۔ کمپیئرنگ اور اسکرپٹ رائٹنگ کا منفرد امتزاج انہیں ریڈیو کی معروف آواز (جمہور دی آواز) بنا گیا۔ لیکن وہ صرف آواز نہیں تھے، ایک ایسی قلمی طاقت تھے جو نوجوان ذہنوں کو تخیل، حب الوطنی، اور ذہانت کا سفر کراتی تھی۔

مظہر کلیم ایم اے نے اپنے پیشرو ابنِ صفی کے بعد ’عمران سیریز‘ کو ایک نیا رخ دیا۔ ان کے ’علی عمران‘ کی شخصیت زیادہ تکنیکی، قومی سلامتی اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تھی۔ ایکس ٹو، صفدر، تنویر، جوزف، جولیا، سلیم، رشید اور نعمان جیسے کردار صرف نام نہ تھے، بلکہ ایسا منظر نامہ تھے جو پڑھنے والوں کے ذہن میں کہانی کی طرح نقش ہو جاتے تھے۔

پاکستانی ادب میں جاسوسی اور تھرلر ناولوں کا منفرد باب ہے، جسے ابن صفی نے نہایت عمدگی سے رقم کیا۔ ابن صفی کے بعد ان کی جگہ لینا آسان نہ تھا، لیکن مظہر کلیم ایم اے نے نہ صرف خلا پر کیا بلکہ ’عمران سیریز‘ کو نئی زندگی دی۔ ان کی تحریروں میں پاکستان کی حقیقی روح، حب الوطنی اور سماجی حقائق کا عکس نظر آتا تھا۔ ان کے ناول صرف قصے کہانیاں نہیں بلکہ ایک عہد کی تاریخ، احساسات، اور جذبوں کی نمائندگی تھے۔

مظہر کلیم کا ’علی عمران‘ وہ کردار تھا جو صرف جاسوس یا جاسوسی کہانی کا ہیرو نہیں تھا، بلکہ ایک قومی جذبے، سچائی کی تلاش اور ذہنی بیداری کی علامت تھا۔ ان کی تحریروں نے قاری کو محض تفریح نہیں دی بلکہ سوچنے، سمجھنے اور ملک و قوم کے بارے میں غور و فکر کرنے پر مجبور کیا۔ ’عمران سیریز‘ میں شامل کردار، پلاٹ اور واقعات، حالات کے عکاس تھے۔

ان کے قلم نے دشمن کی سازشوں کو بے نقاب کیا، دہشتگردی اور ملک دشمنی کے خلاف آواز بلند کی۔ مظہر کلیم کی تحریروں میں جاسوسی اور انٹیلی جنس کے ایسے پہلو سامنے آتے تھے جو قاری کے لیے حیرت اور معلومات کا ذریعہ بنتے۔ ان کا انداز بیان نہایت پر اثر، مگر عام فہم تھا، جو ہر طبقے تک پہنچتا تھا۔

مظہر کلیم کے تخلیقی عمل کا خاص رنگ یہ تھا کہ کبھی مکمل کہانی نہیں سوچتے تھے۔ وہ کہتے، ’میں بس کہانی شروع کرتا ہوں، پھر وہ خود ہی آگے بڑھتی ہے۔‘ یہ انداز تحریر میں تازگی اور حیرت کا تسلسل قائم رکھتا، اور قاری ہر صفحے پر اگلے پل کی پیش گوئی سے قاصر رہتا۔ یہی تو فن کی معراج اور پیش بینی کو مہارت سے شکست دینا ہے۔

دس کروڑ میں دو شیطان، ڈیشنگ تھری، گنجا بھکاری، آپریشن سینڈوچ، کیلنڈر کلر، ناقابل تسخیر مجرم، زندہ سائے، کاغذی قیامت، بلائنڈ مشن اور جیوش پاور جیسے ناول نہ صرف جاسوسی کہانیاں تھیں بلکہ ان میں قومی بیانیہ، سائنسی تخیل، اور نظریاتی تربیت پوشیدہ تھی۔

مظہر کلیم نے ’عمران سیریز‘ کے ذریعے محض سنسنی نہیں بیچی، بلکہ قاری کو سوچنے پر مجبور کیا۔ ان کا ’علی عمران‘ نہ صرف ذہین تھا بلکہ ایسا ہیرو تھا جو نظریاتی، اخلاقی، اور نفسیاتی جنگ لڑتا تھا۔ مظہر کلیم کا ہنر یہی تھا کہ وہ معمولی واقعات میں بھی فلسفیانہ معنویت تلاش کر لیتے تھے۔

انہوں نے دشمن کو ہمیشہ چالاک دکھایا، لیکن عمران کو بھی مکمل برتری نہیں دی۔ جب جنگیں میدانوں میں نہ لڑی جائیں، تو وہ خیالات، نظریات اور لفظوں کی دنیا میں لڑی جاتی ہیں۔ مظہر کلیم کے ناول ایسے ہی مورچے تھے، ایسا نہیں کہ انہوں نے صرف وطن پرستی کی کہانیاں لکھیں بلکہ انہوں نے بچوں کو فکشن (چلوسک ملوسک، چھن چھنگلو اور آنگلو بانگلو) کے راستے شعور سکھایا۔

26 مئی 2018 کو جب مظہر کلیم دنیا سے رخصت ہوئے، تو ’عمران سیریز‘ کا عہد ختم ہوا، جسے انہوں نے تین دہائیوں تک تحریر کیا۔ ان کی کہانیوں کا آخری باب تو شاید انہوں نے خود بھی نہ سوچا ہو۔ لیکن آج، جب ان کا قاری، جسے کبھی ’علی عمران‘ نے بچپن میں ہنسا، ڈرانا اور جگانا سکھایا تھا، وہ قاری اب خود شعور کی منزل پر ہے، تو اُسے اندازہ ہو رہا ہے کہ مظہر کلیم نے اسے کیا دیا۔

کہانی ختم ہو سکتی ہے، کردار مٹ سکتے ہیں، مگر خیالات اور تخیل کی دنیا ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ مظہر کلیم ایم اے کا ’علی عمران‘ اب شاید کسی فائل میں بند ہو چکا، لیکن ذہنوں میں اب بھی برسرپیکار ہے۔ دشمنوں کے تعاقب میں، قوم کے دفاع میں اور نوجوان نسل کے مستقبل کی آبیاری میں۔

’علی عمران‘ اجتماعی شعور کا استعارہ تھا، ایسا استعارہ جو بیدار رکھتا، خبردار کرتا، اور خواب دکھاتا ہے۔ ابن صفی کے بعد ’عمران سیریز‘ کی شمع جس چراغ نے روشن رکھی، وہ مظہر کلیم ایم اے ہی تھے۔ ان کے بعد کئی ہاتھوں نے یہ عَلم تھامنے کی کوشش کی، لیکن وہ جوت، وہ روانی، وہ اثر کہیں کھو گیا۔ یوں لگتا ہے جیسے ’عمران سیریز‘ کا اختتام ہوچکا، ایک عہد ختم ہوا، لیکن اس کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp