بیجنگ سے اُڑن کھٹولا (جہاز) کے ذریعے گوانگشی کے شہر ناننگ پہنچا۔ روانگی سے پہلے میں اس دور دراز چینی علاقے کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا۔ 2200 کلومیٹر سے زائد اس سفر کا مقصد محض اس خطے سے آشنائی تھا۔ جیسے ہی پہنچا، ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی نیا شہر تعمیر ہو رہا ہے کیونکہ پہلی نظر تعمیراتی سرگرمیوں پر پڑی۔ ایک ہوٹل میں قیام کیا اور اگلے ہی دن شہر کو کھوجنے نکل پڑے۔
اس خطے کی نمایاں ترقی، مختلف صنعتوں کی موجودگی، بین الاقوامی تجارت و نقل و حمل، آٹوموٹو، الیکٹرانکس اور زرعی شعبوں میں سرمایہ کاری، مواصلاتی راستوں کی توسیع، اور شہروں کی جدید ظاہری شکل، یہ سب واضح کرتے ہیں کہ چین کی حکومت تمام علاقوں اور قومیتوں کو یکساں توجہ دیتی ہے، خواہ وہ نسلی یا ثقافتی اقلیت سے تعلق رکھتے ہوں۔
چین کے اقلیتی گروہوں سے متعلق مغربی میڈیا کا منفی پروپیگنڈہ اس سرزمین میں آکر دھڑام سے گرتا ہے۔ یہاں آپ کو ترقی کرتا، محنتی، پُرامن اور زندہ دل معاشرہ دکھائی دے گا۔ جنوبی چین کا خوبصورت علاقہ گوانگشی اپنی نسلی اور ثقافتی رنگا رنگی کے لیے مشہور ہے۔ یہاں 12 نسلی اقلیتیں آباد ہیں، جو خطے کی قریباً 5 کروڑ کی آبادی میں 1.9 کروڑ کا حصہ ہیں۔ ان میں سب سے بڑا نسلی گروہ ’ژوانگ‘ ہے، جس کی آبادی 1.5 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
ابتدائی طور پر یہ تنوع پیچیدہ محسوس ہوتا ہے، لیکن جب آپ اس خطے کو دیکھنا شروع کرتے ہیں تو سوالات کے جوابات خود بخود ملنے لگتے ہیں۔
مزید پڑھیں: چائنا میں صرف بیجنگ اور شنگھائی ہی نہیں بلکہ ’ گوانگشی‘ بھی ہے
گوانگشی کے اس دورے میں ہم نے ناننگ شہر میں واقع ’تاریخ و ثقافت میوزیم‘ کا دورہ کیا۔ یہ میوزیم مقامی اقوام کی تہذیب، برانز کے قدیم ڈھول، چٹانوں پر بنی تصویریں، اور ہزاروں سال پرانے اوزاروں کے ذریعے ہمیں تاریخ کی گہرائیوں میں لے گیا۔ یہاں آکر اندازہ ہوا کہ ان 12 قبائل نے کس طرح صدیوں سے اتحاد، ہم آہنگی اور یکجہتی کو پروان چڑھایا۔ وہ کبھی نسلی شناخت کو فاصلے کی دیوار نہیں بننے دیتے۔
میوزیم میں موجود ہر لباس، ہر رسم، ہر شے گواہی دے رہی تھی کہ یہاں کا معاشرہ متنوع ہونے کے باوجود مکمل طور پر جُڑا ہوا ہے۔ گویا یہ لوگ آج بھی ماضی کے پتھریلے گھروں سے مستقبل کے آسمانوں کو تک رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: ایشیا کی سب سے بڑی زرعی اجناس کی منڈی میں 70سالہ چینی سے ملاقات
گوانگشی کی 12 اقوام اتنی باہم مربوط ہیں کہ اگر کوئی شخص اس خطے کی تاریخ، ثقافت اور اقوام کا مطالعہ نہ کرے، تو اسے ان کے درمیان فرق محسوس نہیں ہوگا۔ محض لباس، زبان، کھانے اور معمولی رسم و رواج ہی الگ دکھائی دیں گے، باقی سب ایک جُسم کی مانند ہیں۔
صدر شی جن پنگ نے اس باہمی یکجہتی کو انار کے بیجوں سے تشبیہ دی ہے۔ ایک خوبصورت اور گہری مثال، جو اس قوم کی وحدت کی اصل روح کو بیان کرتی ہے۔
میں اپنے اس سفر میں چین، ایران، ترکی، بھارت، نیپال اور دیگر ممالک کے صحافیوں کے ساتھ تھا۔ سب نے یہی مشاہدہ کیا کہ ناننگ کے باسی نہایت پُرامن، خوش مزاج اور مصروف زندگی کے باوجود تفریح، موسیقی اور ثقافتی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناننگ کو ’چین کا متحرک ترین شہر‘ کہا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:بیجنگ کے 10 ایسے مقامات جو آپ کو ضرور دیکھنے چاہییں
مجھے ناننگ کی فطری خوبصورتی، ثقافتی رنگینی اور رات کی ’زندہ دلی‘ اتنی دلکش لگی کہ میں نے اپنی چینی ساتھی صبا سے کہا کہ ہمیں اپنا ہیڈ آفس بیجنگ سے یہاں منتقل کر لینا چاہیے! یہ شہر مجھے اسلام آباد جیسا سرسبز لگا۔ میرا تعلق اگرچہ خوشاب سے ہے، لیکن گزشتہ 14 سال سے اسلام آباد میں رہائش ہے، سو اب اسے اپنا شہر کہنے میں ہچکچاہٹ نہیں۔ اور اگر موقع ملا تو ناننگ میرا اگلا شہر ہوگا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔