امریکا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں اور کاروباری افراد پر مشتمل ایک وفد، جو پاکستان کے دورے پر ہے، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور اعلیٰ حکومتی حکام سے ملاقات کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ناکام رہا۔
یہ بھی پڑھیں:آخری بال تک لڑیں، مطالبات پورے ہونے تک پیچھے نہیں ہٹیں گے، عمران خان کا جیل سے پیغام
انگریزی روزنامے میں شائع رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں 4 دن گزارنے کے بعد یہ وفد کسی بریک تھرو کے بغیر واپس لاہور لوٹ آیا ہے۔
اب تک کوششیں بے سود رہی ہیں
یہ وفد گزشتہ ہفتے پاکستان پہنچا تھا اور ان کی خواہش تھی کہ وہ اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیرِاعظم عمران خان سے ملاقات کرے اور پسِ پردہ سفارتکاری کے ذریعے اُن کے لیے کسی ممکنہ ریلیف کی راہ تلاش کرے، تاہم اب تک یہ کوششیں بے سود رہی ہیں۔
سینیئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ وفد نے ہفتے (آج) کو واپس امریکا روانہ ہونا تھا، مگر اب امکان ہے کہ وہ پاکستان میں اپنے قیام میں توسیع کرے گا، تاکہ آخری کوشش کے طور پر مطلوبہ ملاقاتیں ممکن بنائی جا سکیں۔
باضابطہ رابطہ یا تصدیق سامنے نہیں آئی
وفد کے ارکان کا ماننا ہے کہ عمران خان کو ان کی موجودگی کا علم ہے اور وہ ممکنہ طور پر ان سے ملاقات کے لیے تیار بھی ہو سکتے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی باضابطہ رابطہ یا تصدیق سامنے نہیں آئی۔
یہ بھی پڑھیں:احتجاجی تحریک کا اعلان ہو چکا، چند دن میں لائحہ عمل دیں گے : جیل سے عمران خان کا پیغام
اس وفد کی ماضی میں بھی عمران خان اور بعض اعلیٰ حکام سے پسِ پردہ ملاقاتوں کی تاریخ رہی ہے۔ چند ماہ قبل کے دورے میں انہوں نے عمران خان اور اسلام آباد کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے ’پُرسکون‘ ملاقاتیں کی تھیں، تاہم اس بار صورتحال مختلف ہے، اور وفد کسی اہم شخصیت سے رابطہ قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق وفد کی بعض پی ٹی آئی رہنماؤں سے بات چیت جاری ہے، جن میں خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈا پور اور عمران خان کی بہن علیمہ خان شامل ہیں۔
عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مصالحت کی کوششیں
یہ وفد، جو کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مصالحت کی کوششیں کر رہا ہے، موجودہ سیاسی ماحول اور پی ٹی آئی اور اداروں کے درمیان کشیدگی کے باعث کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان اور بشریٰ بی بی کے لیے 2 روم کولر اڈیالہ جیل پہنچا دیے گئے
رپورٹ کے نطابق فوجی قیادت نے اپنی یہ پوزیشن دہرا دی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں سے براہِ راست رابطہ نہیں کرے گی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے اداروں پر تنقید، سوشل میڈیا پر جارحانہ مہمات، اور بیرون ملک خاص طور پر امریکا و برطانیہ میں لابنگ نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق وفد کے ارکان کا یہ بھی ماننا ہے کہ پارٹی کی سخت گیر پالیسیوں نے مثبت مکالمے کے امکانات کو کم کر دیا ہے۔
خلیج مزید گہری ہوگئی ہے؟
وفد کی ملاقات طے نہیں ہو سکی اور کسی پیش رفت کا عندیہ بھی نہیں دیا گیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج مزید گہری ہو گئی ہے۔
وفد کا پاکستان میں قیام بڑھانے کا فیصلہ اس امید کا مظہر ہے کہ شاید کوئی مصالحت ممکن ہو، لیکن فی الحال یہ تعطل برقرار ہے۔