انتخابات کی تاریخ دے کر سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز کیا، احمد بلال محبوب

جمعہ 5 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں قانون سازی اور انتخابات کے عمل کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 14 مئی کو انتخابات کی تاریخ اور انتخابی شیڈول دے کر سپریم کورٹ آف پاکستان نے نہ صرف اپنے اختیارات سے تجاوز کیا بلکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات میں مداخلت کی۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق انتخابات کی تاریخ دینا انتظامیہ کا کام ہے۔ انتظامیہ سے مراد وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ جب کہ صوبوں میں وزرائے اعلیٰ اور صوبائی کابینہ کی ایڈوائس پر بالترتیب صدر اور گورنر انتخابات کا اعلان کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ انتخابات کی تاریخ دینا سپریم کورٹ کا کام نہیں بلکہ انتخابی شیڈول دینا تو بالکل بھی سپریم کورٹ کا کام نہیں۔

جمہوری کلچر کے فروغ میں اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ ہے

احمد بلال محبوب نے کہا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی معاملات میں مداخلت جس کا طویل ٹریک ریکارڈ ہے، جمہوری کلچر کے فروغ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ سابق آرمی چیف نے خود اعتراف کیا کہ 70سال سے فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے اور یہ بھی کہا کہ وہ غیر آئینی تھا۔

احمد بلال محبوب نے کہا کہ آج جو مشکلات ہمیں جمہوریت اور معیشت میں پیش آ رہی ہیں یا مجموعی طور پر ایک بحران کی کیفیت ہے اس کا بڑا سبب اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہ ہو تو جمہوریت میں خود احتسابی کا ایک عمل شروع ہو سکتا تھا اور اس عمل سے گزر کر ہم چیزیں بہتر کر لیتے۔

کچھ چیزوں میں ہم بھارت سے بہتر ہیں

احمد بلال محبوب نے کہا کہ بھارت ہمارے جیسا ہی ایک ملک ہے اور کچھ چیزوں میں تو ہمارے سے پیچھے ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ ہمارے ہاں یہ طے ہو چکا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر حکومت اور اپوزیشن کی مرضی سے تعینات ہوگا، انڈیا میں یہ اتفاق رائے ابھی تک نہیں ہو سکا۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی وجہ سے جمہوری کلچر کا فروغ نہیں ہو سکا، کبھی وہ پیسے بانٹتے ہیں، کبھی آئی جے آئی بنواتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کا اعتماد قائم نہیں ہو سکا۔ اسی وجہ سے ٹرن آوٗٹ کم رہتا ہے کیونکہ عدم اعتماد کی وجہ سے لوگ ووٹ نہیں دیتے۔

سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری کلچر نہیں ہے؟

احمد بلال محبوب نے کہا کہ اس سلسلے میں، مَیں سیاسی جماعتوں کو بری الذمہ قرار تو نہیں دیتا لیکن اس کا بھی بڑا سبب اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے پسندیدہ سیاسی قائدین کو لوگوں کو اوپر لے کر آتی ہے، ان کا عوام میں اچھا تاثر قائم کرتی ہے، ان کے مخالفوں کا امیج برباد کرتی ہے اور اس طرح سے ہماری سیاسی قیادت آتی ہے۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ جب اس طرح مصنوعی طریقے سے قیادت آئے گی تو ایک عام سیاسی کارکن اوپر نہیں آ سکتا کیونکہ اس کے مقابلے میں جو قوتیں ہیں وہ بہت طاقتور ہیں۔ اب جس طرح اسٹیبلشمنٹ نے مداخلت نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ اس سے ہمارے ملک میں فطری طور پر جمہوری کلچر فروغ پائے گا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر جمہوریت زیادہ ہے

اس سوال پر کہ پاکستان کی 3بڑی سیاسی جماعتوں میں کون زیادہ جمہوری ہے؟ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ان کے تینوں سیاسی جماعتوں کے ساتھ مراسم ہیں۔ انہوں نے ان کے ساتھ مل کر کام بھی کیا ہے لیکن ان کی ذاتی رائے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر جمہوریت زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے جمہوریت کے حوالے سے بہت مشکل وقت سے گزر کر بہت سی چیزیں سیکھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جمہوری کلچر کے حوالے سے پیپلز پارٹی میں بھی بہت سی کوتاہیاں ہیں لیکن باقی 2کی نسبت اس کے اندر جمہوریت زیادہ ہے۔ پیپلزپارٹی گورننس میں زیادہ اچھی نہیں لیکن جمہوری عمل اور اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں وہ آگے ہوتی ہے، جس کی سب سے بڑی مثال اٹھارویں ترمیم ہے جس میں ان کے پاس اکثریت بھی نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے اتفاقِ رائے پیدا کیا اور صدر زرداری نے بطور صدر اپنے اختیارات خود اصرار کرکے پارلیمنٹ کو دیے۔

عمران خان کا سیاسی رویہ کیسا ہے؟

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ شروع شروع میں عمران خان پارٹی کو ایک ادارہ بنانے کے لیے بہت پُر جوش تھے اور 2013 کے انتخابات سے قبل 2012 میں جب سب لوگ عمران خان کو منع کر رہے تھے کہ پارٹی کے اندر الیکشن نہ کروائیں، انہوں نے کروایا اور پلڈاٹ نے ان کی جماعت کے اس انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کی اور پاکستان کی تاریخ میں اس طرح کا شفاف اور کارکنان کی زیادہ سے زیادہ شرکت سے بھرپور انتخاب کبھی نہیں ہوا۔ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اس زمانے میں عمران خان بہت قریب تھے کہ پاکستان کی سب سے زیادہ جمہوری جماعت کی تشکیل کر دیتے لیکن وہ بالکل کنارے سے واپس آ گئے اور انہیں روایتی لوگوں نے بہت زیادہ مجبور کر دیا۔

عمران خان کے ذاتی رویے میں جمہوریت ہے؟

اس سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنی رائے پہ ڈٹ جانے والے شخص ہیں جس رویے کو اگر مشاورتی عمل کے ساتھ ملا دیا جائے تو بہت اچھا ہو سکتا ہے لیکن ماضی قریب میں 2صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا معاملہ ہو یا قومی اسمبلی سے استعفوں کا معاملہ، نہیں لگتا کہ یہ فیصلے مشاورتی عمل کی بنیاد پر لیے گئے ہیں۔ عمران خان کے دل میں جو بات آئی اس پر انہوں نے زبردستی عمل درآمد کروایا، حالانکہ ان کے وزیراعلیٰ ان کو کہتے رہ گئے کہ یہ اقدامات مناسب نہیں ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کو اپنے رویے میں مشاورت کے عمل کو شامل کرنا چاہیے۔

انتخابات کے نتائج کو غیر متنازع ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ حقیقی طور پر یہ فیصلہ کر لے کہ اس نے مداخلت نہیں کرنی اور الیکشن کمیشن کو مکمل اختیار دیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں صاف شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہ کرے تو کسی کے اندر یہ سکت نہیں کہ وہ قومی سطح پر انتخابی نتائج کو بدل سکے۔

اداروں کا ایک اپنا اپنا دائرہ کار ہے

اس سوال پر کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں کون سپریم ہے؟ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے؟  احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ دونوں اداروں کا ایک اپنا اپنا دائرہ کار ہے لیکن جو چیزیں ہو رہی ہیں نہیں ہونی چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے حوالے سے ماہرین قانون کی رائے منقسم ہے لیکن انہیں لگتا ہے کہ یہ قانون بن سکتا تھا اور اس سے کسی طور سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی نہیں ہوئی۔ صرف جو اختیارات ایک شخص کو حاصل تھے وہ اب 3رکنی کمیٹی کو دے دیے گئے ہیں اور یہ بہت پرانا مطالبہ ہے کہ از خود نوٹس اور بینچ بنانے کا اختیار فرد واحد کو نہیں ہونا چاہییے، اس سے بہت خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اور ہو سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اس قانون کو معطل کر کے بالکل درست قدم نہیں اٹھایا۔ قانون بنانا پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور اس قانون سے عدلیہ کی آزادی پر کسی طور حرف نہیں آیا کیونکہ یہ اختیارات تو اب بھی سپریم کورٹ کے پاس ہی ہیں، ان سے لے کر کسی اور کو نہیں دیے گئے۔

پنجاب میں الیکشن التوا سے متعلق سپریم کورٹ کا حکمنامہ کیوں متنازع ہوا؟

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ الیکشن التواء سے متعلق سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے متنازع ہونے کی وجہ خود سپریم کورٹ کے ججز کے اختلافی نوٹس ہیں جس کے مطابق یہ ازخود نوٹس چار تین سے مسترد ہو چکا ہے۔ اس کا واحد حل فل کورٹ ہے جس کو چیف جسٹس نے ابھی تک قبول نہیں کیا۔

انہوں نے بتایا کہ موجودہ صورتحال غیر معمولی ہے اور آج سے پہلے ایسی صورتحال کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ آج سے پہلے کبھی یہ سوال نہیں اٹھا کہ انتخابات کا اعلان کس نے کرنا ہے۔ انتخابات کا اعلان ہمیشہ صدرِ مملکت کرتے تھے، الیکشن کمیشن ایک خط لکھتا تھا اور تاریخ طے ہو جاتی تھی۔ پہلی بار 2اسمبلیاں وقت سے پہلے تحلیل ہوئی ہیں اور اس سے بہت سے سوالات پیدا ہوئے ہیں۔

انتخابات ایک ہی وقت میں ناگزیر ہیں

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ہمارے آئین میں انتخابات نگران حکومت کے زیر انتظام کرانے کی بات کی گئی ہے لیکن اس بات کو مدنظر نہیں رکھا گیا کہ اگر صوبوں میں الگ سے انتخابات کرانے پڑ جاتے ہیں تو کیا صورتحال ہو گی۔ ہندوستان میں الگ الگ وقت پر انتخابات ہوتے ہیں لیکن وہاں نگران حکومت کا تصور نہیں۔ اب اگر 2صوبوں میں انتخابات ہوتے ہیں تو مرکز میں چونکہ نگران حکومت نہیں اس لیے وفاق میں قائم سیاسی حکومت ان انتخابات پر اثر انداز ہو سکتی ہے، اسی طرح جب قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے تو تب 2صوبوں میں سیاسی حکومتیں قائم ہوں گی اور پنجاب چونکہ سب سے بڑا صوبہ ہے اور قومی اسمبلی کی 50فیصد نشستیں اس صوبے سے آتی ہیں تو صوبائی حکومت قومی اسمبلی کے انتخابات پر اثر انداز ہو سکے گی۔

موجودہ صورتحال میں کوئی راستہ نکالنا چاہیے

احمد بلال محبوب نے کہا کہ آئین میں نگران حکومت کا ذکر ہے، 90روز میں انتخابات کروانے کا ذکر ہے، یہ بھی ذکر ہے اسمبلیاں مدت پوری کرنے سے پہلے تحلیل کی جا سکتی ہیں لیکن یہ تینوں پہلو ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح سے ہم آہنگ ہو کر روبہ عمل آئیں گے اس چیز کا ذکر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں سپریم کورٹ کو تشریح کر کے کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔

14 مئی کو انتخابات نہیں ہو سکتے

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں موجود نگران حکومت کے تصور کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی ذاتی رائے ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں  کے انتخابات ایک ہی وقت میں ہونے چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ 14 مئی کو تو انتخابات نہیں ہو سکتے اور الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے درست نظر ثانی کی درخواست دائر کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے 60روز کے اندر انتخابات ہو جانے چاہییں، اگرچہ اس مدت کو بڑھایا بھی جا سکتا ہے لیکن ان کے خیال میں ایسی صورتحال نہیں کہ انتخابات کو مزید ملتوی کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی تجویز کردہ 8 اکتوبر کی انتخابی تاریخ بہت مناسب ہے۔ اور ان کے خیال میں سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔

پی ٹی آئی کو اصرار نہیں کرنا چاہیے

احمد بلال محبوب نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اسی بات پر زور دینا چاہیے کہ کسی کی مداخلت کے بغیر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں، انہیں ابھی اس بات پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف جب جلد انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھی تب تو 17مہینے کا گیپ تھا لیکن اب تو صرف 5مہینے کی بات ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جب کہ ابھی بجٹ بھی آنا ہے اور مردم شماری بھی مکمل ہونی ہے۔

پہلی دفاعی لائن الیکشن کمیشن آف پاکستان

انہوں نے کہا کہ انتخابی عمل کے حوالے سے پہلی دفاعی لائن الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے۔ جب ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو چونکہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے تو انتخابات کی تفصیلات طے کرنا بھی اسی کی ذمے داری ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصلہ عجلت میں دیا

تاریخ اور وقت تو انتظامیہ یا صدر مملکت طے کرتے ہیں لیکن انتخابی شیڈول طے کرنا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی شیڈول میں ترمیم اور نیا شیڈول دینے کے اختیارات بھی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے تو انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا لیکن سیکیورٹی فورسز نے کہا کہ ہم سیکیورٹی نہیں دے سکتے، ہائی کورٹس نے کہا کہ ہم ریٹرننگ آفیسرز نہیں دے سکتے، حکومت نے کہا ہم پیسے نہیں دے سکتے تو آخری فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا تھا، لیکن میرا خیال ہے سپریم کورٹ نے فیصلہ عجلت میں دیا ہے۔

احمد بلال محبوب نے کہا کہ انتخابات اگر 14 مئی کو بھی ہوتے ہیں تو 90روز کی ریڈ لائن تو کراس ہو چکی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سیکیورٹی فورسز کے نمائندوں کو سننے کے بعد ان مجبوریوں پر غور شروع کیا کہ الیکشن کا التوا کیونکر ناگزیر ہے اور اب سپریم کورٹ میں جو بحث چل رہی ہے تو اس سے کوئی راستہ نکلے گا۔ لیکن جب بھی انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت بنے گی تو اسے 2008 کے انتخابات کی طرح آئین میں ایک نئی شق کا اضافہ کرنا پڑے گا، جس طرح 2010 میں ایک شق 270 ای بی کا اضافہ کیا گیا، جس کے ذریعے مقررہ تاریخ سے ڈیڑھ مہینے بعد وجود میں آنے والی اسمبلی نے اس ڈیڑھ مہینے کی مدت کو قانونی کور فراہم کیا۔

سوشل میڈیا پر ٹرولنگ

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ بہت سی باتوں پر ان کی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی جاتی ہے۔ اگر کوئی دلیل سے بات کرے تو اس سے تو بات کی جاسکتی ہے لیکن اگر کوئی کہے کہ آپ غدار ہیں، پٹواری ہیں، آپ پی ایم ایل این کے کاسہ لیس ہیں، آپ نے پیسے لیے ہیں ان سے، تو اس کا تو کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ میں اس پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا لیکن بدقسمتی سے ایسا کلچر بن چکا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp