امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ جنرل باجوہ اور فیض ہی نہیں، بہت سے ججز اور بیوروکریٹس نے بھی حلف اور آئین سے بے وفائی کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن غیر جانبدار ہو اور ملک میں ایک ہی وقت میں شفاف انتخابات ہوں، جس کے لیے سیاسی جماعتیں مل کر لائحہ عمل بنائیں۔
وی نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے 2 صوبوں میں خود اپنی حکومتیں ختم کیں۔ اس کے لیے کسی نے انہیں مجبور نہیں کیا تھا۔ اسمبلیاں توڑنے میں تو وہ آزاد تھے لیکن اسمبلیاں دوبارہ بنانے اور دوبارہ انتخابات کے لیے انہیں مشاورتی اور مذاکراتی عمل کا حصہ بننا پڑے گا۔ اس طرح نہیں ہوسکتا کہ مرضی سے اسمبلیاں توڑی ہیں تو مرضی سے الیکشن بھی ہو۔
امید کی شمع روشن ہے کہ بات چیت ہو رہی ہے
سراج الحق مذاکراتی عمل سے خاصے پرامید نظر آتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ سیاسی جماعتیں مذاکراتی عمل میں سنجیدہ نظر نہیں آتیں، جس پر ان کا کہنا تھا کہ ایک وقت وہ تھا جب پاکستان تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی 2 بڑی جماعتیں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کی روادار نہیں تھیں اور وزیر داخلہ نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ یا ہم رہیں گے یا وہ۔ ایسے ماحول سے ہم نے ملک کو نکالا اور اب کم از کم ایک امید کی شمع تو روشن ہے کہ بات چیت ہو رہی ہے۔
الیکشن کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے
ایک سوال کے جواب میں امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ الیکشن کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کوئی ذاتی گاڑی نہیں کہ جس پر سوار ہو کر آپ جہاں جانا چاہیں چلے جائیں۔ یہ ایک ٹرین کی صورت ہے جس پر لاکھوں کروڑوں لوگ سوار ہوں گے۔ اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر طے کرنا ہوگا۔ کسی ایک جانب یا کسی ایک کی مرضی سے تو نہیں ہوگا۔
بامعنی مذاکرات ہونے چاہییں
سراج الحق کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ملک میں ایک وقت میں انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کے مابین اخلاص کے ساتھ بامعنی مذاکرات ہونے چاہییں نہ کہ دکھاوے کے مذاکرات، کیونکہ پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ ملک کو اس دلدل سے نکالنے کا کیا راستہ ہے۔
انتخابات ایک ہی وقت میں ہونے چاہییں
سراج الحق کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا اور نظریات الگ الگ ہیں لیکن ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات ہونے چاہییں تاکہ ملک کو اچھی سیاسی قیادت ملے جو انتخابات کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے
امیر جماعت کا کہنا تھا کہ میں درد دل سے کہتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی سیاست اور الیکشن میں غیر جانبدار رہے، یہ ہمارے اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے فائدہ مند ہے۔ قوم کو خود فیصلہ کرنے دیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے گی تو لوگ اس پر تبصرے نہیں کریں گے۔ الیکشن کے نتیجے میں یا تو قوم متحد ہوتی ہے یا تقسیم۔ میں چاہتا ہوں کہ الیکشن کے نتیجے میں قومی وحدت وجود میں آئے۔
ہم کوئی ثالثی نہیں کروا رہے
اس سوال پر کہ کیا جماعت اسلامی کسی کے کہنے پہ یہ ثالثی کروا رہی ہے؟ سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہم کوئی ثالثی نہیں کروا رہے۔ ثالثی تو یہ ہوتی ہے کہ دو فریقوں کے درمیان آپ کو صلح کو اختیار دے دیا جائے۔ ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کے لیے مل کر ایک تاریخ پر اتفاق کر لیں اور یہ اتفاق رائے لڑنے اور مرنے مارنے سے حاصل نہیں ہو گا بلکہ مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو گا۔
جماعت اسلامی ایک حقیقی جمہوری جماعت ہے
امیر جماعت کا کہنا تھا کہ ہر مہینے کے شروع میں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کا اجلاس ہوتا ہے۔ اس میں ہم قومی معاملات پر بات کرتے ہیں، پھر اس کی منصوبہ بندی کے بات اس پر عمل کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی ایک حقیقی جمہوری جماعت ہے جس میں شورائی نظام ہے۔ ہم مل کر چیزیں طے کرتے ہیں پھر اس پر عمل کرتے ہیں۔
ماضی میں جزوی الیکشن کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا
ایک سوال کے جواب میں سراج الحق کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کبھی پی ٹی آئی تو کبھی پی ڈی ایم کا ساتھ دیتی ہے۔ اس لیے کبھی وہ حکومت میں اور کبھی یہ حکومت میں ہوتے ہیں۔ ہم ایک آزاد جمہوری جماعت ہیں۔ ہم نہ ان کے کہنے پر بیٹھتے ہیں نہ ان کے کہنے پر اٹھتے ہیں۔ یہ ہماری رائے ہے کہ پورے ملک میں الیکشن ایک ساتھ ہونا چاہییں۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہم آزاد اور جمہوری جماعت ہیں اور اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی میں جزوی الیکشن کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا اس لیے ہم پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کی کوشش کر رہے ہیں۔
خواب دیکھنے پر پابندی نہیں
امیر جماعت کا کہنا تھا آئین کے مطابق 2023 انتخابات کا سال ہے۔ اگر آپ نے آئین کو الماری میں رکھ کر تالے نہیں لگا دیے تو الیکشن ہوگا اور 2023 ہی میں ہو گا۔ باقی خواب دیکھنے پر پابندی نہیں کوئی شخص کسی بھی قسم کا خواب دیکھ سکتا ہے۔
عدلیہ، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہوں
اس سوال پر کہ انتخابی نتائج کو کس طرح سب کے لیے قابلِ قبول بنایا جائے؟ سراج الحق کا جواب تھا کہ ہم تو سیاسی جماعتوں سے یہی کہہ رہے ہیں کہ مل کر ایک ایسا ضابطہ بنا لیں کہ انتخابی نتائج سب کے لیے قابلِ قبول ہوں۔ سپریم کورٹ میں بھی ہم نے یہی بات کی کہ عدلیہ، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ تینوں غیرجانبدار ہوں کیونکہ تینوں کسی ایک پارٹی کے نہیں بلکہ پوری قوم کے ادارے ہیں۔ یہ ادارے 23 کروڑ عوام کے ٹیکس سے چلتے ہیں اس لیے جب یہ اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالتے ہیں تو یہ ملک و قوم کے لیے صحیح نہیں ہے۔ ہم ہر قیمت پر چاہتے ہیں کہ قومی ادارے غیر جانبدار ہوں اور شفاف الیکشن ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کوئی بھی الیکشن کا نتیجہ قبول نہیں کرے گا۔
اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کا زبردست ساتھ دیا
ایک سوال کے جواب میں امیر جماعت کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے عمران خان کو سڑک سے اٹھا کر وزیراعظم بنوایا وہ خود اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے ان کی بہت مدد کی اور وہ یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری پسند درست نہیں تھی۔ یہ تو کوئی راز نہیں کہ 2018 کہ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کا زبردست ساتھ دیا تھا۔ پی ٹی آئی کو تو پتا ہی نہیں تھا کہ ہم اتنی اکثریت لیں گے لیکن ان کو دلوائی گئی۔ سراج الحق نے کہا کہ 2018 کے الیکشن کو بڑی حد تک آپ سلیکشن کہہ سکتے ہیں۔
سب لوگ مزے کر رہے ہیں
ایک سوال کے جواب میں سراج الحق کا کہنا تھا کہ سب لوگ مزے کر رہے ہیں۔ نقصان ہمیشہ عوام کا ہوتا ہے۔ اس ملک میں مہنگائی اور بد امنی کی وجہ یہی ہے کہ ایسی حکومت آ ہی نہیں سکی جو ڈلیور کر سکے۔ بنگلہ دیش ٹیکسٹائل سٹی بنا رہا ہے، اسمارٹ فون بنا رہا ہے، سعودی عرب سپر کمپیوٹر بنا رہا ہے، ترکی الیکٹرک کار بنا رہا ہے لیکن ہم لنگرخانے، مسافر خانے اور آٹے کے ٹرکوں کے پیچھے دوڑ لگا رہے ہیں۔ اس اشرافیہ نے ملک کو اس حال تک پہنچایا۔ ملک کو اس حال میں پہینچانے کی ذمے دار پی ٹی آئی یا پی ڈی ایم نہیں دونوں اطراف ہیں اور یہی لوگ کبھی ایک تو کبھی دوسری پارٹی میں ہوتے ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد بھی اسی طرح مسلط رہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ عوام کو اختیار ملے۔
اسلام میں کوئی احتساب سے مبرا نہیں
اس سوال پر کہ کیا جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید کا احتساب کیے بغیر آگے بڑھا جا سکتا ہے؟ سراج الحق کا کہنا تھا کہ ان کا احتساب نہ نیب کر سکتی ہے اور نہ ایف آئی اے۔ ماضی میں کسی کا احتساب نہیں ہوا۔ احتساب صرف عوام کر سکتے ہیں اور میں عوام کے لیے اختیار مانگ رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام میں تو کوئی بھی احتساب سے مبرا نہیں لیکن یہاں وی آئی پی کا مطلب یہی ہے کہ میں احتساب سے مبرا ہوں۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ احتساب ہو اور شفاف ہو، انتقام نہ ہو اور سب کے ساتھ حساب کتاب ہو۔
ججز اور بیوروکریٹس نے آئین سے بے وفائی کی ہے
اس سوال پر کہ جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل ہونا چاہیئے؟ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ صرف جنرل باجوہ اور جنرل فیض نہیں، بہت سے ججز اور بیوروکریٹس نے اپنے حلف اور آئین سے بے وفائی کی ہے۔
لوگ ترازو کے نشان پر ٹھپہ لگا دیں
سراج الحق کا کہنا تھا کہ موجودہ حکمران احتساب نہیں کر سکتے۔ جب ملک میں عدل نہ ہو، انصاف کی حکمرانی نہ ہو تو ایک دو افراد کا نام لینے سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ پر جو ترازو کا نشان ہے، اگر لوگ ترازو کے نشان پر ٹھپہ لگا دیں تو تب عدل سپریم کورٹ سے بھی ملے گا، نیب سے ملے گا اور اداروں سے بھی ملے گا۔
المیہ ہے کہ لوگ حلف کی پاسداری نہیں کرتے
عدالت اور پارلیمان کے جھگڑے سے متعلق سراج الحق کا کہنا تھا کہ اس کے قصور وار وہ لوگ ہیں جو اقتدار میں رہے۔ جنہوں نے نہ عدالت کو ٹھیک کیا اور نہ پارلیمان کو۔ ایک چیف جسٹس اعلان کرتا ہے کہ میں ڈیم کے لیے فنڈ اکٹھے کروں گا اور 21لاکھ مقدمات میز پر پڑے ہیں تو کیا وہ اس کے لیے تنخواہ لے رہا تھا۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ لوگ حلف کی پاسداری نہیں کرتے۔ پارلیمان اور عدلیہ میں جس طرح سے ایک دوسرے کے لیے باتیں کی جارہی ہیں اس سے ملک میں پہلے سے موجود تقسیم اور گہری ہو گئی ہے۔ جماعت اسلامی اس کو کسی لحاظ سے درست اور مناسب رویہ نہیں سمجھتی۔ اس ساری لڑائی میں نہ ججز کا نقصان ہے، نہ پارلیمنٹیرینز کا نہ بیوروکریٹس کا۔ اس میں نقصان عوام کا ہے۔ سارا قصور سیاسی جماعتوں کا ہے جنہوں نے کئی کئی بار حکومتیں کی ہیں لیکن اداروں کی اصلاح نہیں کر سکے۔
اشرافیہ کا طبقہ برہمن اور عوام شودر ہیں
عمران خان کے حق میں مخصوص فیصلوں سے متعلق سوال پر امیر جماعت کا کہنا تھا کہ سالانہ 5.7 ارب روپے پارلیمنٹ پر خرچ ہوتے ہیں اور کوئی اہم قانون سازی نہیں ہو ئی۔ عدالتی نظام کو وہی ٹھیک کرسکتا ہے جو خود قانون پر عمل کرتا ہے۔ پاکستان میں آئین کی حکمرانی نہیں اور یہ سب قانون کی حکمرانی پر یقین نہیں رکھتے۔ پاکستان میں اشرافیہ کا طبقہ برہمن اور عوام شودر ہیں۔
چاہتے ہیں کہ امریکا کی غلامی سے نجات ملے
پاک چائنا تعلقات سے متعلق امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ ہم شروع سے یہ چاہتے ہیں کہ امریکا کی غلامی سے نجات ملے اور ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کبھی ہم امریکا اور کبھی روس تو کبھی چائنا پر انحصار کریں۔ آخر ہم بھی تو ایک ملک ہیں، ہمارے پاس بھی تو وسائل ہیں، ہمارے پاس 65 فیصد نوجوان ہیں۔ لیکن ان وسائل سے قوم بنانا مخلص قیادت کا کام ہے جو صرف جماعت اسلامی کر سکتی ہے۔ باقیوں کو موقع ملا لیکن نہیں کر سکے۔
امیر جماعت نے کہا کہ جب آپ بار بار آئی ایم ایف کے پاس قرض لینے کے لیے جائیں گے تو غلامی سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے۔
اسٹیبلشمنٹ طے کرتی ہے کہ کون اقتدار میں آئے گا
اس سوال اہم سوال پر کہ جماعت اسلامی انتخابات میں کامیابی کیوں حاصل نہیں کر پاتی؟ سراج الحق کا کہنا تھا کہ جس دن پاکستان کا ووٹر اور پولنگ بوتھ آزاد ہوا، جماعت اسلامی ایک بڑی سیاسی قوت بن کر آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت سازی کے عمل میں بین الاقوامی اور امریکا کا عمل دخل ہوتا ہے اور ہماری مقامی اسٹیبلشمنٹ طے کرتی ہے کہ کون اقتدار میں آئے گا اور کون اپوزیشن میں بیٹھے گا، کس صوبے میں کس کی حکومت ہوگی اور کس صوبے میں کس کی۔
جماعت اسلامی نے عام آدمی کا ساتھ دیا
امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ جس دن ہمارا انتخابی عمل اثر و رسوخ سے پاک ہو گیا، جماعت اسلامی ملک کی بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھرے گی۔ جماعت اسلامی ایک حقیقی جمہوری اور ترقی پسند جماعت ہے۔ ہر مصیبت میں جماعت اسلامی نے عام آدمی کا ساتھ دیا ہے۔ کرونا ہو، سیلاب یا زلزلہ جماعت اسلامی عوام کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی کو اقتدار کیوں نہیں ملتا۔
عمران خان ہمارے وزرا کی تعریف کرتے تھے
سراج الحق کا کہنا تھا کہ جہاں جہاں محدود پیمانے پر ہمیں اقتدار ملا، پی ٹی آئی کے ساتھ شراکت داری ہو یا ایم ایم اے کے ساتھ یا کراچی کی میئر شپ ہو، سب سے زیادہ ڈلیور جماعت اسلامی نے کیا ہے اور عمران خان ہر جلسے میں ہمارے وزرا کی تعریف کرتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اور جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت میں کوئی ترقی نہیں ہوئی
اس سوال پر کہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی دس سالہ حکومت میں کوئی تبدیلی آئی؟ امیر جماعت کا کہنا تھا کہ میرا ضلع دیر تعلیم میں پہلے نمبر پر تھا اور اب جب میں نے پوچھا توو ہ خیبرپختونخواہ کے سب سے کمزور ترین اضلاع میں شمار ہونے لگ گیا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ پی ٹی آئی نے دعوے تو بہت کیے لیکن کام نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو وہی کام عوام کے سامنے پیش کرتے۔ لیکن پی ٹی آئی پونے 4سال یہی کہتی رہی کہ ہم مسلم لیگ ن کا گند صاف کر رہے ہیں۔
نفرتوں اور تقسیم میں اضافہ
سراج الحق کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت پرانی حکومتوں ہی کا ایک تسلسل تھی۔ یہاں اس ملک میں کچھ نہیں ہوتا بس نفرتوں اور تقسیم میں اضافہ ہوتا ہے۔ کاش کوئی ایک شعبہ بھی ایسا ہوتا جس میں یہ کہہ سکتے کہ اس میں ان کے دور میں ترقی ہوئی۔
ترچھی ٹوپی میری والدہ کی نشانی ہے
اپنی ذات سے متعلق سوال پر سراج الحق کا کہنا تھا کہ میں چھوٹا تھا اور ننگے پاؤں اسکول جاتا تھا۔ میرے والدین مجھے جوتے نہیں دلا سکتے تھے۔ ایک دن میں نے اسکول جانے سے انکار کر دیا کہ بچے میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس پر میری والدہ نے میرے سر پر ٹوپی ترچھی کر دی اور کہا کہ اب کسی کا دھیان تمہارے پیروں کی طرف نہیں جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ترچھی ٹوپی میری والدہ کی نشانی ہے، وہ اب اس دنیا میں نہیں لیکن اس طرح میں ان کو یاد کرتا ہوں۔