بجٹ میں کھانے پینے کی کون سی اشیا سستی کی جا رہی ہیں؟

منگل 10 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں ریگولیٹری ڈیوٹی میں 2 سے 5 فیصد کمی کا اعلان کیا جس سے کھانے پینے، خواتین کا میک اپ، کپڑے، جوتے سمیت دیگر امپورٹڈ اشیا سستی ہونے کا امکان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 26-2025: سوزوکی آلٹو کی قیمت میں اضافہ ہوگا یا کمی؟

قومی اسمبلی اور سینیٹ سے فنانس بل کی منظوری کے بعد بجٹ تجاویز کا اطلاق مختلف اشیا پر ہو جائے گا۔ ریگولیٹری ڈیوٹی میں 2 سے 5 فیصد تک کمی سے کھانے پینے کی مختلف اشیا سستی ہونے کا امکان ہے۔

بجٹ منظوری کے بعد امپورٹڈ چاکلیٹ، ٹافیاں، امپورٹڈ بسکٹ، جیلی، مارملیڈ، امپورٹڈ پنیر، مکھن، شہد، مشروبات، ملک کریم، فلیورڈ ملک، کنڈنسڈ ملک، امپورٹڈ کیچ اپ، مایونیز، آئس کریم، امپورٹڈ پاپڑ، نمکو، چپس، مارش میلوز، امپورٹڈ وٹامن واٹر، منرل واٹر، امپورٹڈ برانڈڈ آٹا، میدہ اور سوجی کی قیمتوں میں بھی کمی کا امکان ہے۔

مزید پڑھیے: بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو کتنا ریلیف دیے جانے کی تجویز؟

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امپورٹڈ اشیا پر عائد ڈیوٹی کم ہونے سے قیمتوں میں یقینی طور پر کمی آئے گی البتہ یہ کمی 2 سے 3 فیصد تک کی ہی ہو گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ہندو برادری کے افراد کو داخلے سے روکنے کی بات درست نہیں، پاکستان نے بھارتی پروپیگنڈا مسترد کردیا

کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، ہم سب انسان ہیں، امیتابھ بچن نے ایسا کیوں کہا؟

پارلیمنٹ ہاؤس سے سی ڈی اے اسٹاف کو بیدخل کرنے کی خبریں بے بنیاد ہیں، ترجمان قومی اسمبلی

ترکی میں 5 ہزار سال پرانے برتن دریافت، ابتدائی ادوار میں خواتین کے نمایاں کردار پر روشنی

27ویں آئینی ترمیم کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں: وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ

ویڈیو

کیا پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات ایک نیا موڑ لے رہے ہیں؟

چمن بارڈر پر فائرنگ: پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور تعطل کے بعد دوبارہ جاری

ورلڈ کلچرل فیسٹیول میں آئے غیرملکی فنکار کراچی کے کھانوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

کالم / تجزیہ

ٹرمپ کا کامیڈی تھیٹر

میئر نیویارک ظہران ممدانی نے کیسے کرشمہ تخلیق کیا؟

کیا اب بھی آئینی عدالت کی ضرورت ہے؟