کارل مارکس کا 205 واں یوم پیدائش: کب ڈوبے گا سرمایہ داری کا سفینہ

جمعہ 5 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عظیم فلسفی، معیشت دان اور انقلابی کارل مارکس کا 205 واں یوم پیدائش ایک ایسے وقت میں منایا جا رہا ہے، جب ایک مرتبہ پھر پوری دنیا میں رونما ہونے والے واقعات ان کے سرمایہ دارانہ نظام سے متعلق تناظر کو درست ثابت کر رہے ہیں۔ دنیا عالمی کساد بازاری کے دہانے پر کھڑی ہے۔ گہرا معاشی زوال سماجی اور ثقافتی گراوٹ میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ رنگ و نسل کے تعصبات ایک مرتبہ پھر انسانی سماجوں کو تاراج کر رہے ہیں۔

مالیاتی اداروں کا دیوالیہ پن

2008ء کے معاشی بحران پر قابو پانے کی کوششیں ابھی جاری تھیں کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا۔ یوکرین جنگ سمیت دیگر عالمی واقعات جلتی پر تیل کی مانند ثابت ہوئے ہیں۔ امریکی اور سوئس بینکوں کے دیوالیہ پن نے عالمی سرمایہ داری کے لیے ایک مرتبہ پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ عالمی معاشی جادوگروں کے تمام منتر الٹے پڑتے جا رہے ہیں۔ بلند افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود میں کیا گیا اضافہ مالیاتی اداروں کے دیوالیہ پن پر منتج ہو رہا ہے۔ معاشی، سماجی اور ماحولیاتی بحران 2008ء سے بڑے اور ہولناک دھماکے کا پتا دے رہا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا زوال آج پھر کارل مارکس کے نظریات کی سچائی کو واضح کر رہا ہے۔

افراط زر نے فیصلہ کن موڑ نہیں لیا

آئی ایم ایف کے مطابق عالمی معیشت کی شرح نمو گزشتہ ایک دہائی کے دوران کم ترین سطح پر رہ سکتی ہے۔ رواں سال 2.8 فیصد کی شرح نمو کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ ساتھ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شرح نمو 2 فیصد سے نیچے بھی آسکتی ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ’عالمی معیشت ایک خطرناک مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، جس دوران معاشی ترقی تاریخی معیار کے لحاظ سے کم رہتی ہے اور مالیاتی خطرات بڑھ گئے ہیں، پھر بھی افراط زر نے ابھی تک فیصلہ کن موڑ نہیں لیا ہے‘۔

مزدوروں کی پہلی عالمی تنظیم

کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کے ان تضادات کو نہ صرف 160 سال قبل واضح کیا تھا، بلکہ ایک متبادل سماجی و معاشی ڈھانچے کی سائنسی وضاحت بھی کر دی تھی۔ مارکس کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف انقلابی جدوجہد کی بنیادیں رکھنے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ اُس نے دنیا بھر کے محنت کشوں کے لیے انقلاب کا پروگرام اور منشور (کمیونسٹ مینی فیسٹو) 1848ء میں اپنے انقلابی دوست فریڈریک اینگلز کے ساتھ مل کر مرتب کیا تھا۔ 28 ستمبر 1864ء کو لندن میں ’انٹرنیشنل ورکنگ مین ایسوسی ایشن‘ قائم کی، جو مزدوروں کی پہلی انٹرنیشنل آرگنائزیشن (عالمی تنظیم) کے نام سے مشہور ہوئی۔

ابتدائی تعلیم اور فلسفے سے رغبت

کارل مارکس 05 مئی 1818ء کو سلطنت پروشیا (موجودہ جرمنی) کے صوبہ رہائن کے شہر ٹریئر میں پیدا ہوئے۔ والد ایک یہودی وکیل تھے، جنہوں نے 1824میں مسیحی فرقے پروٹسٹنٹ کا مذہب قبول کر لیا تھا۔ مارکس نے پہلے بون اور پھر برلن یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور تاریخ  و  فلسفے کا مطالعہ کیا۔

ہیگل کا اثر

ابتدائی طور پر نوجوان مارکس مشہور فلسفی ہیگل کے خیال پرستانہ فلسفے سے متاثر ہوئے اور بائیں بازو کے ہیگلیوں کے حلقے میں شامل ہو گئے۔ان لوگوں کی کوشش تھی کہ ہیگل کے فلسفے سے مادیت کے خیالات اور انقلابی نتائج اخذ کریں۔ بعدازاں مارکس نے ہیگل کی خیال پرستانہ جدلیات کو جدلیاتی مادیت میں تبدیل کر دیا۔

مارکس کے مطابق ’انسانوں کا شعور ان کے وجود کا تعین نہیں کرتا بلکہ ان کا سماجی وجود ان کے شعور کا تعین کرتا ہے‘۔

سائنسی فکر میں عظیم کارنامہ

مارکس نے فلسفیانہ مادیت کو گہرائی اور نشو و نما بخشتے ہوئے مکمل کیا اور فطرت کے ادراک کو انسانی سماج کے ادراک تک وسیع کر دیا۔مارکس کی تاریخی مادیت سائنسی فکر میں ایک عظیم کارنامہ تھا۔

غربت کی وجہ سے مارکس کے تین بچے کم عمری میں ہی فوت ہوئے، جب کہ چوتھا بچہ مردہ پیدا ہوا۔

پیداوار کے رشتے مرضی سے ماورا ہوتے ہیں

مارکس نے سماجی ارتقا کے بنیادی قوانین کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ ’سماجی پیداوار کے عمل میں انسان ناگزیر طور پر مخصوص رشتوں میں بندھ جاتے ہیں۔ پیداوار کے یہ رشتے ان کی مرضی سے ماورا ہوتے ہیں اور پیداواری قوتوں کے ارتقا کے کسی مخصوص مرحلے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان رشتوں کا جمع حاصل سماج کا معاشی ڈھانچہ تشکیل دیتا ہے۔ یہی وہ حقیقی بنیاد ہوتی ہے، جس پر قانون اور سیاست کے بالائی ڈھانچے تعمیر ہوتے ہیں‘۔

صحافت، سیاسی جدوجہد اور جلاوطنیاں

تعلیم مکمل کرنے کے بعد مارکس نے ابتدائی طور پر یونیورسٹی میں پڑھانے کا ارادہ کیا۔ تاہم حکومت کی سخت رجعتی پالیسیوں اور پروفیسروں کی بے دخلیوں کو دیکھتے ہوئے جلد ہی یہ ارادہ ترک کر دیا۔

1842ء میں کولون شہر سے ’رہائن کا اخبار‘ کے نام سے ایک پرچے کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ مارکس کو بھی اس پرچے میں لکھنے کی دعوت دی گئی۔ جلد ہی مارکس اس پرچے کے چیف ایڈیٹر بن گئے اور بون شہر سے کولون منتقل ہو گئے۔

اخبار  پر  پابندی

حکومتی پابندیوں کا سلسلہ صرف درسگاہوں تک ہی محدود نہیں تھا۔ حکومت نے پہلے اس پرچے پر سنسر شپ عائد کی اور بعد ازاں جنوری 1843ء پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مارکس نے ادارت سے استعفیٰ دیا لیکن مارچ میں پرچے کی اشاعت بند کر دی گئی۔ 1843ء کو مارکس نے پیرس سے ایک پرچہ نکالنے کی کوشش کی،لیکن صرف ایک ہی شمارہ شائع ہو سکا۔

لینن نے لکھا تھا کہ ’مارکس کا نظریہ طاقتور ہے کیونکہ وہ سچا ہے۔

نیویارک ڈیلی ٹربیون

جون 1948ء سے مئی 1849ء تک مارکس کی ادارت میں کولون میں ہی ’رہائن کا نیا اخبار‘ شائع ہوا۔  مارکس 1852ء سے1862ء تک اس وقت کے دنیا کے سب سے بڑے اخبار ’نیویارک ڈیلی ٹربیون‘ کے ساتھ بطور کالم نگار منسلک رہے۔

واحد ذریعہ معاش

چند کتابوں کی پیشگی رقوم کے علاوہ مارکس کا واحد ذریعہ معاش صحافت ہی تھا۔ صحافتی کام ختم ہونے کے بعد مارکس کو سخت مشکلات برداشت کرنا پڑیں۔ اگرچہ ان کے نظریاتی ساتھی فریڈرک اینگلز نے معاشی حوالے سے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ تاہم ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے والے مارکس نے فاقہ کشی کی زندگی گزارتے ہوئے انقلابی سفر کو جاری رکھا۔ غربت کی وجہ سے مارکس کے تین بچے کم عمری میں ہی فوت ہوئے، جب کہ چوتھا بچہ مردہ پیدا ہوا۔

شہرہ آفاق تصنیف ’سرمایہ‘

انتہائی تنگ دست حالات کے باوجود مارکس نے لکھنا نہیں چھوڑا۔ مارکس اور ان کے ساتھ اینگلز کی تحریروں کی 54 جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ تاہم سب سے زیادہ شہرت ان کی شہرہ آفاق تصنیف ’سرمایہ‘ کو حاصل ہوئی۔

اصل مسئلہ

مارکس مادی حقائق سے کٹ کر صرف دانشورانہ مباحث تک محدود رہنے کے عمل کے سخت ناقد تھے۔ انکا کہنا تھا کہ ’فلسفیوں نے آج تک مختلف طریقوں سے محض دنیا کی تشریح کی ہے۔ اصل مسئلہ اس کو بدلنے کا ہے‘۔

مارکس نے دنیا کو بدلنے کی جدوجہد کو بھی اپنی زندگی کا مقصد بنا ئے رکھا۔ اس دوران جلاوطنیوں اور حکومتی سختیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جرمنی سے فرانس، بلجیئم اور پھر ساری زندگی لندن میں جلاوطنی میں گزارتے ہوئے 14مارچ 1883کو مارکس نے اپنی آرام کرسی پر آخری سانس لی۔

کارل مارکس کی کتابوں میں سب سے زیادہ شہرت’سرمایہ‘ کو حاصل ہوئی۔

مارکس کے نظریات کی چھاپ

کارل مارکس کے نظریات کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔ دنیا بھر کے حکمران اور سرمایہ دارانہ معیشت دان مارکس پر بھرپور تنقید کرنے کے باوجود یہ اعتراف کرنے پر بھی مجبور ہیں کہ مارکس سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں درست تھے۔

’نیویارک ٹائمز‘ کا اعتراف

امریکی جریدے نیویارک ٹائمز نے یکم مئی 2018ء کو لکھا کہ ’عملی طور پر کمیونزم کی حقیقت کناروں کے ارد گرد تھوڑی کھردری ہو سکتی ہے، لیکن جو چیز آج بھی ہمارے اپنے وقت کے لیے مارکس کی پائیدار مطابقت کے طور پر نمایاں ہے، وہ مارکس کے بنیادی تھیسز کی درستگی ہے کہ سرمایہ داری ایک گہری تقسیم شدہ طبقاتی کشمکش سے عبارت ہے، جس میں حکمران طبقے کی اقلیت محنت کش طبقے کی اکثریت کی سرپلس لیبر (اضافی محنت) کونفع کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ مارکس نے سرمایہ داری کے لافانی ہونے کے نظریاتی دعوے کو کمزور کرنے کے لیے اہم ہتھیار فراہم کیے ہیں۔ یعنی کہ ہم سماجی اور معاشی نظام کو دوبارہ تشکیل دے سکتے ہیں، تاکہ ایک ایسی دنیا تشکیل ہو، جو اس طرح کے سرمایہ دارانہ استحصال کا شکار نہ ہو‘۔

سرمایہ داری کے خلاف رد عمل

مارکس کے 200 ویں یوم پیدائش پر سرمایہ دارانہ نظام کے صف اول کے نمائندہ جریدے ’دی اکانومسٹ‘ نے لکھا تھا کہ ’آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کے خلاف رد عمل دنیا بھر میں تیزی سے ابھر رہا ہے۔ اگر سرمایہ داری کی ان خرابیوں کو دور نہیں کریں گے تو ایک مکمل تباہی اس نظام کو برباد کر دے گی‘۔

مارکس کا پیغام تھا کہ ’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘۔

لینن کا تبصرہ

مارکسی نظریات کی بنیاد پر برپا ہونے والے انقلاب روس کے معمار لینن نے لکھا تھا کہ ’مارکس کا نظریہ طاقتور ہے کیونکہ وہ سچا ہے۔ یہ نظریہ مکمل اور مربوط ہے اور لوگوں کو ایک ایسا باضابطہ عالمی نقطہِ نظر مہیا کرتا ہے، جو توہم پرستی، رجعت اور بورژوا (سرمایہ دارانہ) جبر کے دفاع کی ہر شکل سے ناقابل مصالحت ہے‘۔

’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘

سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے زوال سے متعلق بنیادی تجزیہ اور تناظر آج پھر کارل مارکس کے نظریات کی سچائی کو واضح کر رہا ہے۔ دنیا بھر کے محنت کش طبقے کی نجات کا راستہ کارل مارکس کے پیغام ’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘ میں پنہاں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp