چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ملک بھر میں عام انتخابات ایک ساتھ کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ 3 رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل تھے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’کوئی ہدایت دیں گے نا ہی مذاکرات میں مداخلت کریں گے، اگر چند دنوں میں معاملہ حل نہیں ہوا تو پھر دیکھ لیں گے، نظرثانی اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے‘۔
دوران سماعت انہوں نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ ’ہم نے سوموٹو لینے چھوڑ دیے ہیں‘۔ پورے ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات کے انعقاد پر مائل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت اس آبزرویشن کے ساتھ ملتوی کردی کہ مناسب حکم جاری کریں گے۔
مذاکرات کے لیے مزید وقت درکار ہے: فاروق ایچ نائیک
سماعت شروع ہوئی تو فاروق ایچ نائیک نے اتحادی حکومت کا جواب عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ کہا مذاکرات کے لیے چیئرمین سینیٹ نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ مذاکرات میں فریقین کے نامزد ممبران نے شرکت کی۔ مذاکراتی کمیٹی نے 5 اجلاس کئے۔ چیف جسٹس نے کہا آج خواجہ سعد رفیق اور شاہ محمود قریشی دونوں نظر آرہے ہیں، آج اپنے حوالے سے بھی کچھ بتانا ہے۔
فاروق نائیک نے کہا پیپلز پارٹی یقین رکھتی ہے سیاسی مسائل سیاسی طور پر حل ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات میں تاریخ اور مہینہ ابھی طے ہونا ہے۔ ہمیں علم ہے کہ ملکی معیشت 2017 سے بہتر پوزیشن میں نہیں۔ پاور سیکٹر میں سرکولر ڈیٹ کا اضافہ ہوا ہے۔ سٹاک ایکسچینج کی حالت بھی بہتر نہیں ہے۔ 2022 کے سیلاب نے کئی لاکھ ڈالرز کا نقصان کیا۔ ملکی مودجودہ معاشی صورتحال کو پی ٹی آئی بھی تسلیم کرتی ہے۔ مذاکرات میں ایک ہی دن انتخابات کرانے پر اتفاق ہو ا ہے۔ پیپلز پارٹی یقین رکھتی ہے کہ مداخلت کے بغیر معاملات حل کئے جاسکتے ہیں اس لئے مزید وقت درکار ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ سندھ اور بلوچستان اسمبلی قبل از وقت تحلیل پر آمادہ نہیں، ہر فریق کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑتی ہے، مذاکرات میں کامیابی چند روز میں نہیں ہو سکتی، مذاکرات کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
اسمبلی تحلیل ہونے پر بھی بجٹ کے لیے آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدہ پر زور دیا گیا ہے، عدالت میں مسئلہ آئینی ہے سیاسی نہیں، سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے، آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا بجٹ کے لیے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے، اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہو سکے گا، پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں تحلیل نہ ہوتیں تو بحران نہ آتا، بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے، افہام و تفہیم سے معاملہ طے ہوجائے تو بحرانوں سے نجات مل جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا آئی ایم ایف قرضہ ذخائر میں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ یہ وزیر خزانہ بتا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا اسمبلی تحلیل ہونے پر بھی بجٹ کے لیے آئین چار ماہ کا وقت دیتا ہے۔
حکومت نے مذاکرات کے لیے مزید وقت کی استدعا کر دی
فاروق نائیک نے کہا کہ پیپلز پارٹی یقین رکھتی ہے کہ مداخلت کے بغیر معاملات حل کئے جا سکتے ہیں اس لیے مزید وقت درکار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا رپورٹ وزیر خزانہ کے دستخط کے ساتھ جمع ہوئی ہے، سیاسی مسائل کو سیاسی قیادت حل کرے۔ لیکن موجودہ درخواست ایک حل پر پہنچنے کی ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات اور وفاقی حکومت اس وقت بہت اہم ہیں۔
فاروق نائیک نے کہا کہ بجٹ صرف قومی اسمبلی ہی پاس کر سکتی ہے۔ اگر آج پنجاب یا کے پی کی حکومت ختم نہ ہوتی تو یہ مسئلہ کھڑا نہ ہوتا۔ آپ کو تکلیف نہ دی جاتی، اس وجہ سے عدالت کا دوسرا کام متاثر ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نقطہ اٹھایا تھا، حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے استفسار کیا ’کیا بجٹ آئی ایم ایف کے پیکج کے تحت بنتا ہے؟ اخبارات کے مطابق دوست ممالک بھی آئی ایم ایف پیکج کے بعد قرض دیں گے، کیا پی ٹی آئی نے بجٹ کی اہمیت کو قبول کیا یا رد کیا؟ آئین میں انتخابات کے لیے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا ’ 90 روز میں انتخابات کرانے میں کوئی دو رائے نہیں‘۔
چیف جسٹس نے کہا یہ قومی اور عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عمل داری کا معاملہ ہے، 90 روز میں انتخابات کرانے پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے، کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف سنا، مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لیکر بیٹھی نہیں رہے گی، عدالت نے اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا ہے، آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کے لیے آئین استعمال کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے، کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا، عدالت نے احترام میں کسی بات کا جواب نہیں دیا، غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لیے ہم غصہ نہیں کرتے، ہماری اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو جائزہ لیں، جو بات یہاں ہو رہی ہے اس کا لیول دیکھیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا عدالت کو 90 روز میں انتخابات والے معاملے کا جائزہ لینا ہوگا، انتخابات کے لیے نگران حکومتوں کا ہونا ضروری ہے، منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا، یہ نظریہ ضرورت نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا 23 فروری کا معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں، یہ سارے نکات اس وقت نہیں اٹھائے گئے، آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا ہمیں تو عدالت نے سنا ہی نہیں تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’دوسرے راؤنڈ میں آپ نے بائیکاٹ کیا تھا، کبھی فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، آپ چار تین کی بحث میں لگے رہے، جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نقطہ اٹھایا تھا، حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی، آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں، کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا۔
عدالت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن نے فنڈز اور سیکیورٹی ملنے کا کہا تھا، فاروق ایچ نائیک نے کہا آئینی نکات پر دلائل نہیں ہوسکے تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ نظرثانی اپیل تک حکومت نے دائر نہیں کی، حکومت قانون کی بات نہیں سیاست کرنا چاہتی، پہلے بھی کہا تھا سیاست عدالتی کارروائی میں گھس چکی ہے، ہم سیاست کا جواب نہیں دیں گے، اللہ کے سامنے آئین کے دفاع کا حلف لیا ہے، معاشی، سیاسی، معاشرتی، سیکیورٹی بحرانوں کے ساتھ ساتھ آئینی بحران بھی ہے، کل بھی 8 لوگ شہید ہوئے ہیں، حکومت اور اپوزیشن کو سنجیدہ ہونا ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیں تو کیا قانون پر عمل درآمد نہ کرائیں، کیا عدالت عوامی مفاد سے آنکھیں چرا لے ؟ سپریم صرف اللہ کی ذات ہے، حکومت عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہے، عدالت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، قانون پر عمل درآمد کے لیے قربانیوں سے دریغ نہیں کریں گے، قوم کے جوانوں نے قربانیاں دی ہیں تو ہم بھی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ تحریک انصاف نے ایک ہی دن الیکشن کرانے پر اتفاق کیا ہے، شرط رکھی کہ اسمبلیاں 14 مئی تک تحلیل کی جائیں، دوسری شرط تھی کہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں الیکشن کرائے جائیں، تیسری شرط تھی کہ انتخابات میں تاخیر کو آئینی ترمیم کے ذریعے قانونی شکل دی جائے۔
لازمی تو نہیں کہ بجٹ جون میں ہی پیش کیا جائے: چیف جسٹس
بیرسٹر علی ظفر نے استدعا کی کہ عدالت اپنے حکم پر عمل درآمد کرواتے ہوے فیصلہ نمٹا دے، حکومت نے 14 مٸی کو انتخابات کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست داٸر نہیں کی، فاروق ناٸیک نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ غیر متعلقہ ہے، آٸین سے باہر نہیں جایا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا فاروق ناٸیک نے عدالت کو صرف مشکلات سے آگاہ کیا ہے، بجٹ تو مئی میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں، لازمی تو نہیں کہ بجٹ جون میں ہی پیش کیا جائے۔
ہم نے سوموٹو لینے چھوڑ دیے ہیں: چیف جسٹس
آپ چاہتے ہیں عدالت سوموٹو نکات اٹھائے؟ چیف جسٹس کا خواجہ سعد رفیق سے مکالمہ کہا ہم نے سوموٹو لینے چھوڑ دیے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا سوموٹو کے نتیجے میں ہی پنجاب میں الیکشن کی تاریخ آئی، عدالت خود بھی اس نقطے پر غور کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کے علاوہ کوئی سنجیدہ نقطہ نہیں اٹھانا چاہتا ہے، ابھی تک چار تین کی ہی بات چل رہی ہے، فریقین کو لچک دکھانی چاہیے، کہا اگر آپ کا اتفاق رائے ہو جائے تو امتحان سے نکل سکتے ہیں، اللہ نے امتحان مقرر کیا ہے تو ہمارے ساتھ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ بات 2 اور ہفتوں کی رہ گئی ہے، باتوں کے لیے بھی زیادہ وقت نہیں ہوتا، ایسا نہ ہو ہم باتیں کرتے رہ جائیں، مذاکرات جاری رہے تو اتفاق رائے ہو سکتا ہے۔
چند دنوں میں معاملہ حل نہ ہوا تو پھر دیکھ لیں گے: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی ہدایت دیں گے نا ہی مذاکرات میں مداخلت کریں گے، اگر چند دنوں میں معاملہ حل نہ ہوا تو پھر دیکھ لیں گے، انہوں نے کہا کہ نظرثانی اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے نظرثانی اپیل دائر کر رکھی ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل قابل سماعت ہے؟ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ صرف فنڈز اور سیکیورٹی چاہیے۔
شاہ خاور نے کہا شہباز شریف اور عمران خان مذاکرات میں شامل ہوں تو حل نکل سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم اور عمران خان مصروف لوگ ہیں ان کے نمائندے موجود ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے لقمہ دیا کہ مذاکراتی ٹیموں کو ہی بات کرنے دی جائے، عدالت کو مذاکرات میں نا لایا جائے، پہلے ہی کافی خرابی ہو چکی ہے۔
بیک وقت انتخابات کے معاملے پر مناسب حکم جاری کریں گے: چیف جسٹس
شاہ محمود قریشی نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے کوئی نئی بات نہیں کی، پرانا مؤقف دہرایا ہے، اپنی پوری کوشش کی کہ مذاکرات نتیجہ خیز ہو سکیں، حکومتی بینچز سے عدالتی حکم کی خلاف ورزی اور تکبر والی باتیں آ رہی ہیں، ہماری متفرق درخواست پر تمام کمیٹی ارکان کے دستخط ہیں، حکومتی جواب میں صرف اسحاق ڈار کے دستخط ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا حکومتی درخواست صبح آئی ابھی نمبر بھی نہیں لگا، لیکن اسے سن لیا، پی ٹی آئی اور حکومت کی آپس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں، عدالت کو صرف یہ دیکھنا ہے کسی تاریخ پر اتفاق ہوا یا نہیں، کیا 2 یا 3 دن میں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے؟ شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ حکومت کہتی ہے 13 جماعتیں ہیں مشاورت کے لیے وقت دیں، عمران خان سمیت سب نے تنقید کی کہ 3 دن کا وقت کیوں دیا، تیسری نشست دن 11 بجے ہونی تھی لیکن رات 9 بجے ہوئی، نظرثانی یہ نا دائر کریں، مرضی کی مہلت بھی لیں، فیصلہ نہ ہو تو آئین کیوں داؤ پر لگائیں؟
شاہ محمود قریشی نے کہا آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی ایم ایف والا معاملہ نہ ہمیں معلوم ہے نہ سننا چاہتے ہیں۔ کہا اس معاملے پر مناسب حکم جاری کریں گے۔کیس کی سماعت ملتوی، فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔
حکومت اور اپوزیشن ایک تاریخ کو الیکشن کرانے پر متفق ہیں: سپریم کورٹ میں حکومتی جواب جمع
حکومت نے سپریم کورٹ کو الیکشن کے معاملہ پر اپوزیشن جماعت تحریک انصاف سے مذاکرات پر ’مثبت پیشرفت‘ سے آگاہ کرتے ہوئے ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کے لیے مذاکرات کی بحالی کا عندیہ دیا ہے۔
ملک بھر بیک وقت انتخابات کے ضمن میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے ذریعہ سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں عدالت کو بتایا گیا ہے کہ حکومتی اتحادی اور اپوزیشن ملک بھر میں ایک تاریخ کو الیکشن کرانے پر متفق ہیں۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کے معاملہ پر فریقین میں مذاکرات پر مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ ’تحریکِ انصاف نے ایک تاریخ کو الیکشن کرانے پر اتفاق کیا ہے۔ ملکی کے بہترین مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کو تیار ہیں۔‘
اس جواب میں عدالت عظمٰی کو بتایا گیا ہے کہ حکومتی اتحادیوں نے مذاکرات میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسمبلیوں کو وقت سے پہلے تحلیل کرنے پر بھی غور کیا، تاہم قومی اسمبلی اور باقی صوبائی اسمبلیاں کی تحلیل کے لیے کسی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔
حکومتی موقف پر مبنی ایک دوسرے جواب میں بھی وفاقی حکومت نے انتخابات پر مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کےلیے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ ’حکمران اتحاد یقین رکھتا ہے کہ سیاسی معاملات کا حل سیاسی بات چیت میں ہے۔‘
حکومتی موقف پر مبنی اس جواب میں بتایا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ بات چیت شروع ہونے کے بعد اہم پیشرفت ہوئی ہے۔ ملک کے وسیع ترین مفاد میں مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے پر تیار ہیں۔
27 اپریل کی سماعت کا تحریری حکم نامہ
سپریم کورٹ نے اپنے تحریری حکم نامہ میں کہا کہ اٹارنی جنرل نے حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے درمیان باہمی روابط سے آگاہ کیا، عید کی چھٹیوں کے بعد فریقین درمیان عام انتخابات پر مذاکرات سے متعلق رابطہ ہوا ہے۔
حکم نامہ میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے فریقین کی مذاکراتی ٹیموں کی تشکیل سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا اور کہا کہ مذاکرات کی سہولت کاری چیئرمین سینیٹ کریں گے۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامہ میں مزید کہا گیا کہ عدالتی اسرار پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو چیئرمین سینیٹ کو ملوث کرنے پر آگاہ کیا ان کے مطابق مذاکرات سینیٹ سیکرٹریٹ میں ہوں گے، مذاکرات کے لیے چیئرمین سینیٹ کا کردار محض سہولت کار کا ہے۔
حکم نامہ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکراتی عمل کو سراہتی ہے، سیاسی جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک دن کرانے پر متفق ہوتی ہیں تو یہ قابلِ ستائش عمل ہے۔
عدالتی حکم نامہ میں کہا گیا کہ مذاکراتی عمل کے لیے عدالت کا کوئی کردار نہیں اور نہ ہی کوئی ڈائریکشن نہیں دی تاہم پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکمنامہ برقرار رہے گا۔