ایران پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے، جن میں ایرانی فوجی کمانڈرز اور جوہری سائنس دانوں کو نشانہ بنایا گیا، افغانستان میں سخت ردِعمل کا باعث بنے ہیں۔ ان حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے افغانستان کی عبوری حکومت اور سابق اعلیٰ سیاسی شخصیات نے شدید مذمت کی ہے۔
عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس کارروائی کو ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ ایسے اقدامات خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے اسرائیل کا تبریز پر ایک اور حملہ ، ایران میں ملک گیر ہائی الرٹ جاری، عالمی برادری کا اظہار تشویش
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایران کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ’ناقابلِ معافی جارحیت‘ قرار دیا۔ انہوں نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر لکھا
’ اسرائیل کے یہ حملے نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ ہم ایرانی عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور سفارتی ذرائع سے مسائل کے حل پر زور دیتے ہیں۔‘
سابق حکومت کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی اس اقدام کو ’غیر قانونی‘ اور ’دشمنانہ‘ قرار دیتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر اس کی مذمت کی اور ایرانی عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
افغانستان کا مؤقف
عبوری حکومت افغانستان تمام ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور مفادات کی بنیاد پر پرامن تعلقات کی حامی ہے۔ ایران پر اسرائیل کے یہ حملے خطے میں عدم استحکام کا باعث قرار دیے گئے ہیں، اور افغانستان نے بین الاقوامی اصولوں کے احترام اور تنازعات کے پرامن حل پر زور دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے تہران پر اسرائیلی حملوں میں 78 افراد کے شہید، 329 زخمی ہوئے، ایرانی میڈیا
افغانستان پر ممکنہ اثرات
ایران اور اسرائیل کے درمیان اس کشیدگی کے افغانستان پر براہِ راست اور بالواسطہ اثرات پڑ سکتے ہیں:
- ایران و افغانستان کے مابین پانی کے تنازع، اقتصادی روابط اور پناہ گزینوں کے مسئلے جیسے معاملات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں، کیونکہ ایران ممکنہ طور پر افغانستان کے خلاف دباؤ بڑھانے کی پالیسی اپنا سکتا ہے۔
- خطے میں عدمِ استحکام دہشتگردی اور مسلح گروپوں کی سرگرمیوں میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے، جو افغانستان کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہے، بالخصوص ایسے وقت میں جب ملک پہلے ہی سیکیورٹی چیلنجز اور معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔
- چابهار بندرگاہ کے ذریعے افغان تجارت، جو کہ افغانستان کے لیے انتہائی اہم ہے، اس کشیدگی سے متاثر ہو سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، خطے کی یہ صورتِ حال افغانستان کے لیے توازن پر مبنی اسٹریٹجک تعلقات کو برقرار رکھنے کی ضرورت کو مزید اجاگر کرتی ہے، تاکہ ملک عالمی اور علاقائی کشمکش سے محفوظ رہ سکے۔ امن اور سفارتکاری کے ذریعے مسائل کا حل ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔