ایرانی دارالحکومت تہران، شیراز اور اصفہان میں اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے وسیع پیمانے پر حملے کیے گئے ہیں، جب کہ ایران نے بھی ’آپریشن وعدہ صادق 3‘ کے تحت اسرائیلی شہروں پر بیلسٹک میزائلوں کی بارش کردی ہے۔ تہران میں اسرائیلی بمباری کے دوران 5 کار بم دھماکوں کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔
ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام اور فوجی صنعتوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:روس ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے، ولادی میر پیوٹن کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفونک گفتگو
’اتوار کی شام تازہ کارروائی میں اسرائیلی طیاروں نے اصفہان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا، جس میں ایران کے یورینیم افزودگی کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔‘
Act of sabotage in the city of Mashhad
Follow: https://t.co/mLGcUTS2ei pic.twitter.com/ulLZKUI0kx
— Press TV 🔻 (@PressTV) June 15, 2025
اس کے ساتھ ساتھ تہران کے مغربی علاقے میں واقع شاہ ران آئل ڈپو، فجر جام گیس فیلڈ اور جنوبی فارس گیس فیلڈ جو دنیا کی سب سے بڑی گیس فیلڈز میں شمار ہوتی ہے کو بھی حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
ایرانی حکام نے بھی تصدیق کی ہے کہ مغربی تہران میں شاہ ران آئل ڈپو پر حملے کے بعد وہاں آگ بھڑک اٹھی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل نے تہران کی ارمیا ملٹری بیس پر بھی فضائی حملہ کیا، جس کے نتیجے میں پاسدارانِ انقلاب کے کم از کم 4 اہلکار شہید ہوگئے۔
امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیارے تہران کی فضاؤں میں آزادانہ پروازیں کررہے ہیں اور شہر بھر میں وقفے وقفے سے دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
ایران کا بھرپور جوابی حملہ
ایرانی مسلح افواج نے اسرائیلی حملوں کے جواب میں ’آپریشن وعدہ صادق 3‘ کے تحت مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر میزائل حملوں کا نیا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ مہر نیوز ایجنسی کے مطابق ایران نے شمالی اور وسطی اسرائیل میں متعدد فوجی اور حساس مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایران کے میزائل حملوں کے بعد تل ابیب، اشکلون، حیفہ اور طبریہ میں خطرے کے سائرن بجنا شروع ہو گئے، اور شہریوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ فوری طور پر قریبی بم شیلٹرز میں پناہ لیں۔
ایرانی بیلسٹک میزائل حملوں میں اسرائیلی فضائی دفاعی نظام کے لیے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں، اور آئی ڈی ایف کے مطابق وہ مسلسل میزائلوں کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔
حیفہ، تل ابیب اور طبریہ کو نشانہ بنایا گیا
عبرانی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ایرانی میزائل حملے میں حیفہ اور طبریہ کے علاقے براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ میزائل حملوں کے باعث متعدد علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی ہے، جبکہ کئی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔
اسرائیلی دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ اگر ایرانی حملے جاری رہے تو اس کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، جب کہ ایران کا مؤقف ہے کہ وہ کسی بھی جارحیت کا بھرپور اور مکمل دفاع کرےگا۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ ایران نے شہریوں پر حملہ کر کے سنگین غلطی کی ہے، ہم تہران کو بیروت بنا دیں گے۔
دوسری جانب اسرائیلی حکومت نے مغربی تہران میں جوہری تنصیبات کے قریب آباد شہریوں کو علاقہ خالی کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے، جو ممکنہ بڑے حملے کی پیشگی نشانی سمجھی جا رہی ہے۔
جوابی کارروائی شدید ہوگی، ایران کا انتباہ
ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے حملے جاری رکھے تو ایران کا ردعمل تباہ کن ہوگا۔ گزشتہ رات ایران کے میزائل اور ڈرون حملوں میں 14 اسرائیلی ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اسرائیلی صدر نے ان حملوں کو انتہائی تکلیف دہ رات قرار دیا۔
ادھر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے امریکا پر کسی بھی شکل میں حملہ کیا تو اسے امریکی فوج کی ’پوری طاقت‘ کا سامنا کرنا پڑے گا، جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے کہاکہ امریکا کا ایران پر اسرائیلی حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ آج (ہفتہ و اتوار کی درمیانی) شب ایران پر ہونے والے حملے میں امریکا شامل نہیں تھا، لیکن اگر ایران نے امریکا پر حملہ کیا تو ہماری فوج پوری طاقت کے ساتھ جواب دے گی۔
اپنے بیان میں ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ہم آسانی سے ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک امن معاہدہ کروا سکتے ہیں اور اس خونی تنازعے کا خاتمہ ممکن ہے۔
ایران کا اسرائیل پر بڑا حملہ، 14 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی
ایرانی میزائل حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں، جب کہ تقریباً 35 افراد لاپتا ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کا ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کو نشانہ بنانے کا عندیہ
سب سے زیادہ نقصان بات یم اور ریشون لیزیون جیسے علاقوں میں ہوا جہاں رہائشی عمارتوں پر براہ راست حملے ہوئے۔ امدادی ٹیمیں اب بھی کئی مقامات پر ملبے تلے لوگوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔
اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ یہ صورتحال فوری ختم ہونے والی نہیں اور تنازع دنوں کے بجائے ہفتوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
ایران نے ہفتے کی شب ایک مرتبہ پھر اسرائیل پر حملہ کردیا اور ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس نے اسرائیلی شہر حیفا میں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق یہ تازہ ترین حملے ہفتے کے روز مقامی وقت کے مطابق تقریباً 11 بج کر 45 منٹ پر شروع ہوئے اور ان حملوں کا مرکزی ہدف حیفا شہر تھا، جو صیہونی ریاست کی کئی اہم فوجی اور صنعتی تنصیبات کا مرکز ہے۔ حملے کے ساتھ ہی پورے علاقے میں سائرن بجنا شروع ہوگئے۔
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی قابض ریاست کی جارحیت کے جواب میں کی جا رہی ہے، جس کا مقصد صیہونی قیادت کو واضح پیغام دینا ہے کہ جارحیت کا مؤثر جواب دیا جائے گا۔
Target near Haifa port ablaze following Iranian missile strike
Follow Press TV on Telegram: https://t.co/boCY50qN7H pic.twitter.com/GC7sFZvzvv
— Press TV 🔻 (@PressTV) June 14, 2025
پاسدارانِ انقلاب نے اعلان کیا ہے کہ اس کی ایرو اسپیس فورس نے اسرائیل کے خلاف بڑی تعداد میں میزائل اور ڈرونز فائر کیے ہیں۔ ایرانی فوجی ذرائع کے مطابق یہ جوابی حملہ اسرائیل کی جانب سے ایرانی اہداف کو نشانہ بنانے کے بعد کیا گیا، جس کا مقصد دشمن کو بھرپور اور واضح پیغام دینا ہے کہ ایران اپنی خودمختاری اور مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ حملے کے دوران جدید اور مختلف النوع میزائل سسٹمز استعمال کیے گئے، جبکہ ڈرونز نے بھی کئی اہم عسکری اہداف کو نشانہ بنایا۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کے ایران پر حملے جاری، 20 سے زیادہ ایرانی فوجی کمانڈرز شہید کردیے، اسرائیلی فوج کا دعویٰ
ابھی تک اسرائیلی حکام کی جانب سے ان حملوں کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ نقصانات کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا، تاہم خطے میں کشیدگی میں شدید اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ تہران میں مختلف عسکری اہداف کو فضائی حملوں کا نشانہ بنا رہی ہے، جبکہ ساتھ ہی ایران کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو فضا میں تباہ کرنے کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ایران پر حملے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال نہیں کرنے دینگے، آذربائیجان
الجزیرہ کے مطابق حیفا پر ایرانی حملے کی توقع پہلے ہی سے کی جارہی تھی کیونکہ یہ علاقہ صیہونی ریاست کے قدرتی گیس کے بڑے ذخائر اور تنصیبات کا مرکز ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حملے غالباً اسرائیلی فورسز کی جانب سے ایران کے بوشہر کے قریب گیس فیلڈ اور آبادان کی آئل ریفائنری پر کیے گئے حملوں کا جواب ہیں۔
تہران سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہ صرف ابتدائی ردعمل ہے اور ایرانی حکام نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ جوابی کارروائی مزید شدت اختیار کرے گی اور آئندہ مرحلوں میں حیفا کے ساتھ ساتھ تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کی جانب بھی حملوں کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
آئرن ڈوم محفوظ نہیں، اسرائیل کا اعتراف
ایرانی میزائل حملوں کی تازہ لہر کے بعد اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ ان کا فضائی دفاعی نظام ناقابلِ شکست نہیں ہے۔ حکام کے مطابق حالیہ دنوں میں ہونے والے شدید ترین حملوں میں کم از کم 15 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی حملوں میں مزید 2 ایرانی جنرلز شہید، تعداد 8 ہوگئی
اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) نے ہفتے کی رات جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا کہ ایران نے 2 بیلسٹک میزائل داغے جن کا ہدف حیفہ اور ٹیل اویو کے اہم علاقے تھے۔ اس حملے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور عام شہریوں کو نقصان پہنچا۔
برطانوی میڈیا بشمول بی بی سی نے شمالی اسرائیل میں ایک اہم سٹریٹجک تنصیب حیفہ بندرگاہ کو پہنچنے والی بڑی تباہی کی رپورٹ کی ہے۔
اسرائیلی پولیس نے تصدیق کی کہ متاثرہ علاقوں میں ہنگامی ٹیمیں بھیجی گئی ہیں جو زخمیوں کی مدد میں مصروف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی ولی عہد کا ایرانی صدر سے رابطہ، اسرائیلی حملوں کی مذمت اور ایرانی عوام سے یکجہتی کا اظہار
IDF نے ایک غیر معمولی بیان جاری کرتے ہوئے شہریوں کو ہوشیار رہنے اور حفاظتی اقدامات پر عمل کرنے کی ہدایت کی۔
فوج نے اپنے عوامی ایڈوائزری میں کہا ہمارا فضائی دفاعی نظام ناقابلِ شکست نہیں ہے۔ ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سائرن سنتے ہی فوری طور پر پناہ گاہوں میں چلے جائیں اور سرکاری انتباہات کو نظر انداز نہ کریں۔
تل ابیب، حیفہ اور گلیل کے علاقوں میں رات بھر سائرن سنائی دیے، جبکہ آسمان میں دھماکوں کی روشنی دیکھی گئی۔ مقامی باشندے زیر زمین پناہ گاہوں کی طرف دوڑ پڑے۔
حوثیوں کا اسرائیل پر بلیسٹک میزائل حملہ
یمن کے ایران کے حامی حوثی گروپ نے اتوار کے روز دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیل کے مرکزی شہر یافہ پر کئی بیلسٹک میزائل داغے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا کا یمنی حوثیوں کے مالیاتی نیٹ ورک سے متعلق معلومات پر 15 ملین ڈالر انعام کا اعلان
ان کا کہنا ہے کہ یہ حملے ایران کے ساتھ مل کر کیے گئے، جبکہ اسرائیل اور ایران کے درمیان میزائلوں کا تبادلہ جاری ہے۔
حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل پر یہ حملے غزہ میں فلسطینیوں کی حمایت کے طور پر کر رہے ہیں، جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان شدید جنگ جاری ہے۔
اسرائیل کا ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کو نشانہ بنانے کا عندیہ
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب ایک اعلیٰ اسرائیلی عہدیدار نے واضح الفاظ میں کہا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی بھی حملوں سے محفوظ نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ایرانی انٹیلی جنس ناکامی کا ممکنہ سبب بھارت ہو سکتا ہے، ڈاکٹر ماریہ سلطان
اسرائیلی قیادت کا کہنا ہے کہ ایران کی قیادت ہی جنگی حکمت عملی اور عسکری کارروائیوں کی اصل ذمہ دار ہے، اس لیے انہیں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل نے ایران کے نیوکلیئر اور فوجی مراکز پر فضائی حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے، جبکہ ایران نے بھی جوابی کارروائی میں اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
دونوں ممالک کی جانب سے براہِ راست حملے ایک ممکنہ وسیع جنگ کے خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔
اسرائیلی عہدیداروں کا یہ دعویٰ کہ خامنائی جیسے اعلیٰ رہنما بھی حملے کی زد میں آ سکتے ہیں، بین الاقوامی برادری کے لیے باعث تشویش ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قیادت کو نشانہ بنانے کی پالیسی نہ صرف جنگ کو مزید خطرناک بنا سکتی ہے بلکہ خطے کے استحکام کو بھی شدید متاثر کرے گی۔
سعودی ولی عہد کا ایرانی صدر سے رابطہ، اسرائیلی حملوں کی مذمت اور ایرانی عوام سے یکجہتی کا اظہار
سعودی ولی عہد و وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے اتوار کو ایران کے نومنتخب صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا، جس میں حالیہ اسرائیلی حملوں کے تناظر میں ایرانی عوام سے یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔
گفتگو کے آغاز میں شہزادہ محمد بن سلمان نے ایرانی صدر، ایرانی قوم اور جاں بحق افراد کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ شہدا کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے اور زخمیوں کو جلد صحتیابی عطا فرمائے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کی ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت، اقوام متحدہ سے فوری مداخلت کا مطالبہ
سعودی ولی عہد نے اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائیاں ایران کی خودمختاری اور سلامتی کے خلاف اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ انہوں نےکہا کہ ان حملوں نے موجودہ مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچایا ہے اور کشیدگی میں کمی کی سفارتی کوششوں کو متاثر کیا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب مسائل کے حل کے لیے پرامن مذاکرات اور بات چیت کو ترجیح دیتا ہے، نہ کہ طاقت کے استعمال کو۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب اور ایران کا فلسطین اسرائیل کشیدگی کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے پر اتفاق
ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے سعودی ولی عہد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایران سعودی عرب کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ان ہدایات پر بھی شکریہ ادا کیا جن کے تحت ایرانی حجاج کی واپسی تک سہولیات فراہم کی گئیں۔
سعودی ولی عہد نے زور دیا کہ سعودی عرب ان حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے جو ایرانی خودمختاری اور سلامتی کے خلاف ہیں، اور بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ایران پر حملے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال نہیں کرنے دینگے، آذربائیجان
باکو کسی بھی بیرونی طاقت کو ایران یا کسی اور ملک پر حملے کے لیے اپنی فضائی یا زمینی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس بات کا اظہار آذربائیجان کے وزیر خارجہ جیحون بیراموف نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں کیا۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کا ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کو نشانہ بنانے کا عندیہ
بیراموف نے ایرانی فوجی کمانڈروں اور شہریوں کی ہلاکت پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے ایرانی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ باکو کسی بھی بیرونی عنصر کو جارحانہ مقاصد کے لیے اپنی زمین یا فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
دوسری طرف عراقچی نے اسرائیلی فوجی حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے انہیں ایران کی قومی خودمختاری اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
عراقچی نے کہا کہ ایسی اشتعال انگیزیاں عالمی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالتی ہیں اور ایران کو اپنے حق خود دفاع کے تحت سخت جواب دینے کا حق حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایرانی انٹیلی جنس ناکامی کا ممکنہ سبب بھارت ہو سکتا ہے، ڈاکٹر ماریہ سلطان
انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی حملوں بالخصوص پرامن جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی مذمت کرے جو تمام سرخ لکیریں پار کرنے کے مترادف ہے۔
جمعہ کی رات اسرائیل نے تہران اور اس کے گردونواح کے علاوہ نطنز، تبریز، اصفہان، اراک اور شیراز سمیت متعدد مقامات پر حملے کیے۔ تیل ابیب حکومت نے تہران اور اس کے قریب رہائشی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا۔
اسرائیلی فوج نے ایران کے اعلیٰ فوجی افسران کو بھی ٹارگٹ کیا جس میں مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری اور اسلامی انقلابی گارڈز کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی شامل تھے۔
حملوں کے بعد اسلامی انقلاب کے رہبر آیت اللہ سید علی خامنائی نے کہا کہ اسرائیلی حکومت نے ایران پر راتوں رات کیے گئے حملوں سے اپنے لیے ’تلخ اور دردناک‘ مقدر پر مہر لگا دی ہے۔
امریکا کو حساب دینا ہوگا، عراقچی
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایران کے پاس ایسے پختہ ثبوت موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی افواج اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیے جانے والے فوجی حملوں میں اس کی مدد کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:’ڈراپ اسرائیل‘: ایران سے لڑائی نے ٹرمپ کی حمایت کو تقسیم کر دیا
انہوں نے امریکا کو خبردار کیا کہ وہ اس معاملے سے پیچھے ہٹ جائے۔
اتوار کے روز تہران میں تعینات غیر ملکی سفیروں سے خطاب کرتے ہوئے عراقچی نے واضح کیا کہ ایران کو اپنے دفاع اور اسرائیلی حملوں کا جواب دینے کا پورا حق حاصل ہے، کیونکہ اسرائیل 13 جون سے ایران کے نیوکلیئر، فوجی اور سویلین علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل تنہا یہ حملے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، جب تک کہ اسے امریکا کی پشت پناہی حاصل نہ ہوتی۔
صورتحال پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے
عراقچی نے کہا کہ ایران نے تمام صورتحال پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور اس کے پاس ناقابل تردید شواہد ہیں کہ امریکی افواج اسرائیل کے ان حملوں کی حمایت کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان ثبوتوں سے بھی اہم بات یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ وزیر خارجہ کے مطابق امریکا اسرائیلی حملوں میں برابر کا شریک ہے اور اسے اس کا حساب دینا ہوگا۔
امریکا کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے
عراقچی نے مطالبہ کیا کہ امریکا کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے اور ایران پر اسرائیلی حملوں کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ تہران یہ امید کرتا ہے کہ واشنگٹن اسرائیل سے فاصلہ اختیار کرے گا۔
وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے اسرائیلی جارحیت پر خاموشی پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ایران نے اسرائیلی حملوں کے جواب میں فوجی اور اقتصادی اہداف کو نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیں:ایران پر حملے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال نہیں کرنے دینگے، آذربائیجان
عراقچی کے مطابق، ابتدائی میزائل حملے میں صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، لیکن جب دوسرے دن اسرائیل نے ایران کی اقتصادی عمارات پر حملے کیے، تو ایران نے بھی جوابی کارروائی میں اقتصادی اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
آبادی پر اسرائیلی حملے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں، ایرانی وزارت خارجہ
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین اور واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اپنے ایکس (ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر اسماعیل بقائی نے لکھا کہ ’اسرائیلی حکومت نے ایران کے خلاف کھلی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے‘۔
A grieving teacher holds photos of her young students killed by Israeli airstrikes.
This is not 'preemptive strike'; it is war crime committed through a blatant aggression. pic.twitter.com/JfKCVlXRjy— Esmaeil Baqaei (@IRIMFA_SPOX) June 14, 2025
انہوں نے کہا کہ ’منظم طریقے سے میزائل اور ڈرون حملوں کے ذریعے اسرائیل نے رہائشی علاقوں، شہری انفرااسٹرکچر اور ان جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں ہیں‘۔
ترجمان نے زور دے کر کہا کہ ’یہ کارروائیاں بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح اور سنگین خلاف ورزی ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں:حوثیوں کا ایرانی تعاون سے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل حملہ
اسماعیل بقائی کے مطابق ’ایک انتہائی ہولناک حملے میں اسرائیلی میزائل نے ایک رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 60 بے گناہ افراد شہید ہوئے، جن میں 29 بچے شامل تھے‘۔
یاد رہے کہ جمعہ اور ہفتے کی درمیانی رات اسرائیل نے تہران سمیت دیگر ایرانی شہروں پر ایک سلسلہ وار حملے شروع کیے۔ ان حملوں میں رہائشی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، جو کہ کشیدگی میں بڑے اضافے کی علامت ہے۔
ٹرمپ اور اردوان کا رابطہ، ایران اسرائیل کشیدگی پر تشویش کا اظہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان آج ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں مشرق وسطیٰ میں جاری ایران-اسرائیل کشیدگی اور اس کے ممکنہ اثرات پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:ترکیہ، پاکستان اور آذربائیجان 3 ریاستیں مگر ایک قوم ہیں: رجب طیب اردوان
دونوں رہنماؤں نے خطے میں بڑھتی ہوئی جنگی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کشیدگی کم کرنے کے لیے فوری سفارتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، ترک صدر نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلے کا حل صرف پرامن مذاکرات اور سفارتی کوششوں سے ممکن ہے۔
اردوان نے ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کی بحالی کو موجودہ بحران کا واحد مثبت راستہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ترکی خطے میں قیام امن کے لیے ہر ممکن تعاون کو تیار ہے۔
صدر ٹرمپ نے بھی موجودہ حالات پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ ایران کو جارحیت سے باز آ کر سفارتکاری کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران پر اسرائیلی حملے کی حمایت، ٹکر کارلسن امریکی صدر پر برس پڑے
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اس تنازع کو مزید بڑھنے نہیں دینا چاہتا لیکن اپنے اتحادیوں کے تحفظ کے لیے تمام آپشنز پر غور کر رہا ہے۔
دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ موجودہ صورتحال مزید بگڑنے سے خطے میں انسانی بحران جنم لے سکتا ہے جس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس ہوں گے۔ اس موقع پر ٹرمپ اور اردوان نے رابطے میں رہنے اور اقوام متحدہ سمیت عالمی فورمز پر مشترکہ موقف اپنانے پر بھی اتفاق کیا۔