سپریم کورٹ بار کے عہدیداران کو ڈی سیٹ کرنے کا معاملہ: عدالت عظمیٰ نے حکم امتناع جاری کر دیا

جمعہ 5 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری اور ایڈشنل سیکریٹری کو ڈی سیٹ کرنے کے معاملے پر سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ بار کے ڈی سیٹ ہونے والے عہدیدران کی درخواست پر پاکستان بار کونسل کو نوٹس جاری کر دیا۔ سپریم کورٹ بار کے معاملات سے متعلق حکم امتناع جاری کرتے ہوئے سماعت 9 مئی تک ملتوی کر دی۔

جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل 2 رکنی خصوصی بینچ نے سپریم کورٹ بار کے ڈی سیٹ ہونے والے عہدیدران کی دراخواست کی سماعت کی۔ سیکریٹری سپریم کورٹ بار اور ایڈیشنل سیکریٹری بار کو پاکستان بار کونسل کی جانب سے ڈی سیٹ کرنے کے فیصلے کو معطل کرنے کی استدعا مسترد کر دی گئی۔

عدالت نے کہا پہلے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ ہو گا تو پھر ہی اس معاملے کو دیکھیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پہلے ہمیں یہ بتایا جائے کہ کیا یہ درخواستیں قابل سماعت ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا 184 (3) کے میں یہ معاملہ کیسے آتا ہے، ہمیں اس پر مطمئن کیا جائے؟

صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا سپریم کورٹ بار آئین کی حکمرانی اور قانون کی پاسداری کو یقینی بناتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ ایک تنظیم ہے تو یہ کیسے عوامی مفاد سے جڑی ہے، تنظیم کو اس سے نہ جوڑیں، ہمیں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے معاملے کا پتا نہیں پہلے ہمیں حقائق بتائیں۔

صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے بتایا کہ سیکریٹری پاکستان بار کونسل نے شوکاز نوٹس سے قبل خطوط لکھے لیکن درخواست گزاروں کو سماعت کا موقع دیے بغیر ڈی سیٹ کر دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ’وجہ کیا بنی‘؟

اس پر عابد زبیری نے کہا ’سپریم کورٹ میں میرا ایک کیس تھا اور اسی وقت لاہور میں 24 اپریل کو اجلاس تھا۔ میں نے اجلاس کا وقت تبدیل کرنے کا کہا تاہم اس دن پھر سپریم کورٹ بار کے 2 اجلاس ہوئے، میرے لاہور پہنچنے سے پہلے سپریم کورٹ بار کے کچھ عہدے داروں نے اجلاس کرکے اسے ختم کر دیا، میں لاہور پہنچا تو میں نے اپنا اجلاس بلا لیا، یہاں سے معاملات خراب ہوئے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا شوکاز نوٹس سے پہلے آپ کو خط لکھا گیا۔ عابد زبیری نے کہا جی، خط لکھا گیا لیکن ہم نے آگاہ کیا کہ معاملہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے شوکاز نوٹس جاری نہیں کیا جا سکتا، اس کے باوجود پاکستان بار کونسل نے ہمارے سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری کو ڈی سیٹ کرکے فنانس سیکریٹری کو چارج دے دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا ’ پاکستان بار کونسل سے کون آیا ہے‘۔ وکیل شعیب شاہین نے بتایا کہ ہم نے پاکستان بار کونسل کو کیس کی سماعت سے متعلق آگاہ کیا لیکن کوئی بھی سماعت میں نہیں آیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ آپ ہمیں ابھی تک نہیں بتا سکے کہ یہ معاملہ براہ راست بنیادی انسانی حقوق سے کیسے جڑا ہوا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا آپ براہ راست سپریم کورٹ کیسے آسکتے ہیں؟

صدر سپریم کورٹ بار نے کہا یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ’آپ ہائیکورٹ کیوں نہیں گئے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا ’ کیا متعلقہ فورم ہائیکورٹ نہیں بنتی‘۔ وکیل شعیب شاہین نے بتایا کہ ہائیکورٹ سید اقبال گیلانی کیس کے بعد ایسے معاملات کو نہیں دیکھتی۔ اس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا ’یہ الیکشن کا معاملہ نہیں آپ ہائیکورٹ جا سکتے ہیں‘۔

عابد زبیری نے کہا کہ شعیب شاہین اور پاکستان بار کونسل کا کیس دیکھیں تو واضح ہوجائے گا۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کہاں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ بار کے معاملات سپریم کورٹ دیکھے گی۔ شعیب شاہین تو پہلے ہائیکورٹ گئے تھے پھر ان کا معاملہ سپریم کورٹ آیا تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا آپ ہم سے اصول طے کرانا چاہتے ہیں کہ آئندہ سے سپریم کورٹ بار کے معاملات سپریم کورٹ ہی دیکھے، کیا سپریم کورٹ بار کے عہدے داروں کو ڈی سیٹ کرنے کا اختیار پاکستان بار کونسل کو ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا شوکاز نوٹس کون جاری کرتا ہے؟

صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے بتایا کہ پاکستان بار کونسل کی انضباطی کمیٹی جاری کرتی ہے لیکن یہاں ایگزیکٹو کمیٹی نے کیا ہے، انضباطی کمیٹی بھی شکایت کے بعد نوٹس جاری کرتی ہے یہاں تو شکایت ہی نہیں، یہ نوٹس غیر قانونی ہے، نوٹس میں بھی نہیں لکھا کہ کس قاعدے کے تحت جاری کیا گیا، یہاں عہدے داروں کو ڈی سیٹ کرکے معاملہ انضباطی کمیٹی کو بھیجا گیا۔

عابد زبیری نے استدعا کی کہ عدالت شوکاز نوٹس کو معطل کرکے سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری کو بحال کرے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا ’ابھی تو ہم نے معاملے کے قابلِ سماعت ہونے کو دیکھنا ہے کیسے ہم نوٹس معطل کر سکتے ہیں، آپ کا کیس ہے کہ پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کو ڈی سیٹ کرنے کا اختیار نہیں، ہم سوالات کے جوابات تلاش کر رہے ہیں، سب سے اہم سوال ہے کہ معاملہ 184 کی شق 3 میں کیسے آتا ہے؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ’ہم پر سٹیٹس کو برقرار رکھتے ہیں، لیکن جو ڈی سیٹ ہوگئے ہیں وہ دوبارہ جوائن نہیں کر سکتے۔ صدر سپریم کورٹ بار نے کہا اگر آپ سٹیٹس کو برقرار رکھتے ہیں تو فنانس سیکریٹری حفظہ چوہدری کو تو پاکستان بار کونسل چارج سنبھالنے کا حکم دے چکی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ ہم سے کیوں غیر قانونی کام کرانے چاہتے ہیں ہم پاکستان بار کونسل کا نوٹس معطل نہیں کرتے، ہم تفصیلی حکم جاری کریں گے۔ سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے معاملے پر سٹیٹس کو برقرار رکھتے ہوئے سماعت 9 مئی تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp