تصویریں تو ہم دیکھتے رہتے ہیں اور کہانیاں بھی بہت پڑھتے ہیں مگر تصویروں میں بولتی کہانیاں ہم نے پہلی بار ’عکسِ امن‘ کے عنوان سے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں منعقدہ ایک تصویری نمائش میں دیکھیں، جہاں آرٹ کی طالبات نے خواتین صحافیوں کو درپیش معاشرتی ناانصافیوں کو کینوس پر بہت خوبصورتی سے منتقل کیا ہے۔
تصویریں بولتی ہیں اور اس سے انکار اس لیے ممکن نہیں کہ ہر تصویر اپنے اندر کوئی نہ کوئی کہانی سمیٹے ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ مجھے آرٹ گیلری میں پہنچ کر ہوا۔ ایسا لگا جیسے مختلف کردار مجھ سے باتیں کرنے کے لیے بے تاب ہوں۔ ہال کے تینوں اطراف دیواروں یہ پینٹینگز سلیقے سے آویزاں تھیں۔ ہر پینٹنگ مجھے اپنی جانب بولا رہی تھی کہ پہلے اس کی کہانی کو سنوں۔
آرٹ گیلری میں مختلف صحافی، آرٹ کی طالبات اور وزیٹرز رنگوں سے لکھی ان کہانیوں کو دیکھنے میں مصروف تھے۔ ہال میں ایک فرنچ ایمبیسی کی آفیشل خاتون بھی وہاں موجود تھیں۔ جب میری ان پر نظر پڑی تو وہ پاکستانی کلچر پر مبنی ایک پینٹنگ کو بڑی غور سے دیکھ رہی تھیں۔ اس تصویر کو کچھ منٹ دیکھنے کے بعد خاتون وہ پینٹنگ خرید لی۔ ان کے ساتھ موجود مترجم نے بتایا کہ اس پینٹنگ میں جو پاکستانی کلچر اور امن کو اجاگر کیا گیا ہے اس خوبصورت کلچر نے خاتون کو پینٹنگ خریدنے پر مجبور کیا ہے۔
اس نمائش میں آرٹ کے 17 طالبات نے حصہ لیا اور معاشرے میں امن کی ضرورت اور طریقوں کو اجاگر کرنے والی کہانیوں کی نمائندگی کرنے کے لیے 16 پینٹنگز اور 3Dایک پراجیکٹ تیار کیا تھا۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کچھ طالبات کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ ایک بہت اچھا موقع اور ایک نئی سرگرمی تھی جس سے ان کو معاشرتی ناانصافیوں کو کینوس پر اتارنے کا موقع ملا۔
فاطمہ جناح یونیورسٹی سے وابستہ آرٹ کی طالبہ آمنہ نے بتایا کہ ان کو جب کہانی کے چناؤ کا موقع ملا انہیں ’ I want to go home, a cry behind the closed doors ‘ کے عنوان نے بہت متاثر کیا۔
آمنہ کے مطابق یہ کہانی صحافی عاصمہ بشیر کنڈی کی تھی۔ اس کہانی کا عنوان پڑھتے ہی مجھے لگا کہ یہ ایک بہت حساس کہانی ہے۔ چاہتی تھی مَیں جو کہانی کینوس پر اتاروں وہ ہمارے معاشرے کے لوگوں سے منسلک ہو اور اتفاق سے یہ عنوان میری خواہش کے مطابق تھا۔
آمنہ نے مزید بتایا کہ ان کے لیے پینٹنگ کے ذریعے اس کہانی کو لوگوں تک پہنچانا اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ اس کہانی میں ایک بہت حساس مسئلے کا ذکر ہے۔ اس کہانی میں جبری مشقت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح دوسرے شہروں سے بچوں کو پیشگی ادائیگی پر گھروں میں ملازموں کے طور پر لے آیا جاتا ہے اور پھر وہ بچے چاہ کر بھی اپنے گھر والوں سے برسوں نہیں مل پاتے۔
ایک اور طالبہ رباب سجاد نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنی پینٹنگ میں ایک ایسی کہانی کو اجاگر کیا ہے جو خواجہ سرا کی زندگی کی عکاسی پر مبنی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح پولیس خاتون، اپنی خواجہ سرا شناخت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے علاقے کی خواتین قیدیوں کے خلاف بھیانک جرائم، منشیات اور انسانی اسمگلنگ، جرائم پیشہ گروہوں کی مدد اور حوصلہ افزائی جیسے جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں۔
رباب کہتی ہیں کہ میری پینٹنگ میں غیر متوازن ترازو اس بات کی عکاسی کر رہا ہے کہ کس طرح اس خواجہ سرا نے اپنے اختیار کو غلط طریقے سے استعمال کیا۔ ہاتھ میں ترازو کا مطلب یہ کہ وہ کس طرح سے قانون کو اپنی انگلیوں پر نچا رہا ہے۔ پینٹنگ میں موجود رنگوں کے چناؤ میں پولیس خواجہ سرا کی فرعونیت کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔
یہ وہ چند پینٹنگز تھیں جنہوں نے مجھے چند لمحوں کے لیے چونکا دیا تھا۔ پینٹینگز کے عقب میں موجود مختصر تحریر پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ کچھ کہانیوں کے لیے لفظوں کو ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تصویریں خود اپنی کہانیاں سناتی ہیں۔