پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر محمد عامر نے اپنی کرکٹ سے جڑی خوبصورت یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ 2009 میں سری لنکن بلے باز دلشان بہترین فارم میں تھا۔ وہ ہر ٹیم کے بولرز کو مشکل میں ڈال رہا تھا، ٹاپ اسکورر بھی تھا، اور سری لنکا کو اوپر سے اچھا آغاز دے رہا تھا۔
اس وقت کے لیے 150 یا 160 کا اسکور بھی بڑا مشکل سمجھا جاتا تھا۔ ہمارا پلان یہی تھا کہ اگر دلشان کو جلدی آؤٹ کر دیا جائے تو ٹیم کے لیے فائدہ ہوگا۔
یونس بھائی کے ساتھ پلاننگ کے دوران انہوں نے بھی کہا کہ اگر ہم دلشان کو شروع میں آگے بال نہ کریں تو بہتر ہوگا کیونکہ اگر ہم اس کی وہ مخصوص شارٹ بند کروا دیں تو وہ دباؤ میں آ سکتا ہے۔ ہم نے سوچا کہ اسے بیک فٹ پر لے جانا ہمارے لیے فائدہ مند ہوگا۔

اگر آپ ویڈیوز دیکھیں تو میں نے دلشان کو شروع میں 3-4 باؤنسرز کیے تھے، جس کے بعد وہ بیک فٹ پر آ گیا۔ پھر ایک گیند پر اس نے زبردستی اپنا شارٹ کھیلنے کی کوشش کی اور مجھے کامیابی ملی۔
یہ بھی پڑھیں:ٹی20 ورلڈ کپ کی تاریخ میں گرین شرٹش کے منفرد ریکارڈز
محمد عامر نے کہا کہ جب آپ کوئی سیریز جیتتے ہیں تو بڑی خوشی ہوتی ہے، لیکن جب آپ ورلڈ چیمپئن بن جاتے ہیں تو یہ خوشی بیان سے باہر ہو جاتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جن کی وضاحت ممکن نہیں۔ جیسے اگر آپ 1992 کی ورلڈ چیمپئن ٹیم کے کسی رکن سے بات کریں تو ان کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے، میں جب اس بارے میں بات کرتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ آپ ورلڈ چیمپئن ٹیم کا حصہ بنتے ہیں، اور ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو یہ اعزاز حاصل کرتے ہیں، اور میں خوش نصیب تھا کہ ان میں شامل ہوا۔
محمد عامر کا کہنا تھا کہ پھر جو لوگوں کا پیار تھا، وہ کبھی نہیں بھولا جا سکتا۔ آج بھی یاد ہے جب ہم راولپنڈی ایئرپورٹ پر اترے اور مجھے گاؤں، گجر خان جانا تھا، تو راستے میں لوگوں نے جو استقبال کیا، وہ آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔ میرے پاس آج بھی اس وقت کی ویڈیوز گھر میں محفوظ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ویرات کوہلی نے اپنے 300ویں ون ڈے میچ میں تاریخ رقم کردی
لوگ چھتوں پر کھڑے ہو کر پھول پھینک رہے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں تو وہ ساری عمر یاد رہتے ہیں۔