یمن میں حکومت کے زیرانتظام جنوبی علاقوں میں غذائی تحفظ کی صورتحال سنگین صورت اختیار کر گئی ہے جہاں تقریباً نصف آبادی کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے اور بیشتر لوگوں کو یہ پریشانی لاحق رہتی ہے کہ انہیں اگلا کھانا کہاں سے اور کیسے ملے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کن علاقوں کے افراد کو بھوک کا عفریت نگلنے والا ہے؟
اقوام متحدہ کی سرپرستی میں غذائی تحفظ کے مراحل کی مربوط درجہ بندی (آئی پی سی) کے مطابق ملک میں 49 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بحرانی یا بدترین (3+) درجے کی بھوک کا سامنا ہے جبکہ 15 لاکھ لوگ ہنگامی درجے (4) کے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
یہ تعداد نومبر 2024 سے فروری 2025 کے درمیان سنگین درجے کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے لوگوں کے مقابلے میں 3 لاکھ 70 ہزار زیادہ ہے۔
آئی پی سی کے تحت غذائی تحفظ کی درجہ بندی کے لیے 1 تا 5 مراحل کا پیمانہ استعمال ہوتا ہے جس میں آخری درجے کا مطلب قحط ہے۔
غذائی عدم تحفظ کے اسباب
اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ صورتحال مزید بگڑنے کا خطرہ ہے اور 420،000 لوگ بحرانی یا اس سے اگلے درجے کے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس طرح ملک کے جنوبی علاقوں میں شدید غذائی قلت کا سامنا کرنے والی آبادی تقریباً 54 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔
مزید پڑھیے: غزہ دنیا کا ’سب سے بھوکا علاقہ‘ قرار، اقوام متحدہ کا انتباہ
متواتر معاشی انحطاط، کرنسی کی قدر میں کمی، مسلح تنازع اور شدید موسمی حالات ملک میں غذائی عدم تحفظ میں اضافے کے بڑے اسباب ہیں۔
خوراک تک غیریقینی رسائی
ڈبلیو ایف پی کے علاوہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) ایسے علاقوں میں امدادی سرگرمیوں پر خاص توجہ دے رہے ہیں جنہیں غذائی عدم تحفظ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان جگہوں پر غذائی تحفظ، غذائیت، صحت و صفائی، طبی مدد اور تحفظ کی خدمات مہیا کی جا رہی ہیں۔
یمن میں ‘ڈبلیو ایف پی’ کے نائب ڈائریکٹر سائمون ہولیما نے کہا ہے کہ ملک میں روزانہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جن کی خوراک تک رسائی غیریقینی ہو گئی ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امدادی سرگرمیوں کے لیے فراہم کیے جانے والے وسائل میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے۔
فوری مدد کی ضرورت
اقوام متحدہ کے تینوں اداروں نے ملک کے لیے پائیدار اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی اور لوگوں کو روزگار کے حصول میں مدد دینے کو کہا ہے تاکہ غذائی عدم تحفظ کی شدت میں کمی لائی جا سکے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل نے بھوک کو جنگی ہتھیار بناکر غزہ کے مزید 29 بچے اور بوڑھے قتل کردیے
موجودہ حالات اندرون ملک بے گھر لوگوں، کم آمدنی والے دیہی گھرانوں اور کمزور بچوں پر بری طرح اثرانداز ہو رہے ہیں۔ ملک میں 5 سال سے کم عمر کے تقریباً 24 لاکھ بچے اور 15 لاکھ حاملہ اور دودھ پلانے والی مائیں غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہیں۔
یمن میں ایف اے او کے نمائندے ڈاکٹر حسین غدین نےکہا ہے کہ حالات خراب ہیں لیکن فوری مدد کی فراہمی اور اس کا مؤثر استعمال یقینی بنا کر مقامی سطح پر خوراک کی پیداوار کو بحال کیا جا سکتا ہے، روزگار کو تحفظ دینا ممکن ہے اور بحران کو استحکام میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔