امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق کا اعلان کیا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ باضابطہ جنگ بندی کا آغاز پہلے ایران کرے گا۔ 12ویں گھنٹے پر اسرائیل بھی جنگ بندی کردے گا، 24 گھنٹے مکمل ہونے پر 12 روزہ جنگ کے خاتمے کو دنیا تسلیم کرلے گی۔ ابتدائی خلاف ورزیوں پر ٹرمپ کے سخت ردعمل کے بعد بظاہر سیز فائر پر عمل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
23 جون کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جو ایرانیوں اور ان کی تاریخ کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ ایرانی وہ قوم نہیں ہے جو سرینڈر کرے۔ ایرانی رہبر سرینڈر مودی کو نہیں چھیڑ رہے تھے، وہ ایرانی احساس تفاخر کو آواز دے رہے تھے۔ یہ بیان امریکا کی جانب سے 3 نیوکلیئر سائٹ پر حملے کے بعد دیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں ایران نے قطر میں العدید امریکی ایئر بیس پر جوابی حملہ کیا۔
ایرانی حملے کو امریکی صدر نے ایک کمزور ردعمل قرار دیا۔ جس کے کچھ گھنٹوں کے بعد امریکی صدر نے ہی جنگ بندی کا اعلان کردیا۔ جنگ بندی ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ کے دونوں سخت لونڈے اب سر پر پٹیاں باندھے اپنی اپنی فتح کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ اسرائیل کو تسلی ہوگئی ہے کہ نہتے لوگوں پر فوج چڑھانا اور بات ہے، پابندیوں کے شکار، ایئرفورس اور ایئر ڈیفنس نہ رکھنے والے ایران کے ساتھ لڑنا مختلف ہے۔
ایرانی میزائلوں نے اسرائیلیوں کا گھر ہی دیکھ لیا تھا۔ اسرائیلی میڈیا کی اپنی رپورٹ کے مطابق 12 دن میں ایران کے 533 میزائل اسرائیل کی طرف داغے گئے۔ ان میں 28 کنفرم ہلاکتوں کا بتایا گیا ہے۔ اسرائیلی حکام کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے متاثرین کی 39 ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ یہ وہ متاثرین ہیں جنہیں ایرانی حملوں کی وجہ سے مختلف نوعیت کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
19 جون تک ایران کی وزارت صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 430 ایرانی شہری ان حملوں میں جان سے گئے جبکہ 3500 زخمی ہوئے۔ ہرانا (ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ نیوز ایجنسی ایران) کے مطابق 722 ہلاکتیں ہوئی جن میں اکثریت تو عام شہریوں کی ہی تھی لیکن اعلیٰ فوجی عہدیدار اور سائنسدان بھی ایک بڑی تعداد میں مارے گئے۔ ایران کے پاس کسی قسم کا ایئر ڈیفنس نہ ہونے کی وجہ سے اس کی فضاؤں پر اسرائیلی ایئرفورس کا کنٹرول رہا۔
اسرائیل نے جنگ چھیڑ تو لی تھی اور ابتدائی حملہ بھی متاثر کن رہا تھا مگر ایرانی جواب کے بعد اسرائیلیوں نے امریکا کو آوازیں لگانا شروع کردی تھیں کہ اب آکر ان کا ادھورا کام مکمل کرے اور ایرانی نیوکلیئر سائٹ کا تیاپانچہ کرے۔ امریکا نے یہ اسرائیلی خواہش پوری کردی، اور پھر امریکی حملوں کا ایران نے ڈھیلا سا جواب دیا، جس کے بعد جنگ بندی ہوتے دیر نہیں لگی۔
چائنہ اکیڈمی ایک چینی ویب سائٹ ہے۔ اس پر چن جنگ کا ایک مضمون چھپا۔ چن جنگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کمیونیکیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ چن نے ایران کو مشورہ دیا کہ آپ کے پاس میزائل بہت ہیں۔ ہر روز اسرائیل کی طرف 10 میزائل چلاتے رہو۔ ایسا کرو گے تو اسرائیلیوں کی بنکر کی طرف دوڑ لگتی رہے گی یوں سیاح اسرائیل کی طرف رخ نہیں کریں گے۔
اس کے علاوہ اس مضمون میں یہ بھی کہا گیا کہ آبنائے ہرمز کو بند کرو، ایسا کرو گے تو تیل کی قیمت 120 ڈالر سے اوپر چلی جائے گی۔ اس کے بعد امریکا اسرائیل کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا اور وہ بمباری جاری رکھیں گے۔ ایران کوئی چھوٹا ملک نہیں ہے اس کو ہر جگہ نشانہ بنانا آسان نہیں ہے۔ ایران جب جنگ کے میدان میں کھڑا رہے گا تو وہ وقت بھی آجائے گا جب چین اور روس ایران کی مدد کو آئیں گے۔
چین اور روس کی سفارتکاری اور حمایت کا نتیجہ سیز فائر کی صورت نکلے گا اور یوں ایران کا رجیم بھی چینج نہیں ہوگا۔ ایٹمی توانائی پر تیسرے ملک کا کنٹرول اور نگرانی مان کر ایک باعزت سا بے عزت سمجھوتا ہوجائے گا۔ یہ بے عزت کولوں پایا ہے اس پر توجہ نہ دیں چن جنگ نے صرف باعزت ہی کہا تھا۔ سیز فائر کے بعد ٹرمپ نے چین سے کہا کہ وہ اب ایران سے تیل خریدنا جاری رکھ سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آبنائے ہرمز کھلی رہے گی۔ اسی طنز سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چین اس لڑائی سے کیوں لاتعلق رہا۔
ایران کو ایک دلچسپ مشورہ چن جنگ نے اور بھی دیا اور وہ یہ تھا کہ اپنی ایئر فورس اور ایئر ڈیفنس بحال کرنے کے لیے پاکستان سے مدد لو۔ 10، 20 ارب ڈالر خرچ کرو تو پاکستان یہ دونوں کام تیزی سے کرا دے گا۔ اپنا خیال یہ ہے کہ اس مشورے نے ہی ایرانیوں کی بس کرائی ہے۔ حوالدار بشیر کی مذاکراتی صلاحیتوں اور اس کی فارسی دانی کا سوچ کر ہی ایرانیوں نے جنگ بندی کا فیصلہ کیا۔
مشرق وسطیٰ میں ایران یا اسرائیل کوئی ایک ونر ہوجائے اور سب کو آگے لگائے پھرے، یہ کوئی نہیں چاہتا، ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ 12 دن کی جنگ نے دونوں ملکوں کے پول کھول دیے ہیں۔ اب جب یہ حساب کتاب لگائیں گے تو امید ہے کافی عرصہ سکون کریں گے۔ آج کی دنیا میں پرانے ڈیزائن کی جنگوں، پراکسی لڑائیوں اور مسلح گروپوں کی گنجائش نہیں رہ گئی۔ اب معیشت ہی ڈرائیونگ فورس ہے اور اسی کی جانب دھیان دینا ہوگا، اسی کا فائدہ نقصان فیصلے کراتا ہے۔ ایران اور اسرائیل دونوں کی ہی بس ہوگئی تھی، دونوں کی معیشت کے کڑاکے نکل رہے تھے۔ جنگ بندی کا امکان دیکھتے ہی دونوں لڑائی چھوڑ کر دوڑ گئے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔