سپریم کورٹ: مخصوص نشستوں سے متعلق کیس، سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل، حامد خان کے شروع، سماعت کل تک ملتوی

جمعرات 26 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں استفسار کیا ہے کہ 39 امیدواروں نے حلف نامے دیے، باقی 41 نے کیوں نہیں دیے؟

سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج صبح مخصوص نشستوں سے متعلق اہم آئینی کیس کی سماعت ہوئی، جس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر بحث کی جا رہی ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں  11 رکنی بینچ سماعت کی۔ یہ سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان کے یوٹیوب چینل پر براہِ راست نشر کی گئی۔

وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل

آج صبح جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو معروف وکیل سلمان اکرم راجہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ انہوں نے اپنے دلائل کے آغاز سے پہلے جسٹس جمال مندوخیل کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔

پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ میں سندھ ہائیکورٹ بار کیس فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ یہ فیصلہ مثال ہے کہ عدالت آئین بحالی کے لیے مداخلت کرتی رہی۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد کئی اقدامات کیے گئے۔ سپریم کورٹ نے اس ایمرجنسی کو غیر آئینی کہا۔ اس ایمرجنسی کے بعد اٹھائے گئے تمام اقدامات بھی کالعدم کیے گئے۔

سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل کے دوران مشرف دور کی ایمرجنسی کالعدم قرار دینے کا فیصلہ پڑھ دیا۔ اور موقف اختیار کیا کہ عدالت نے قرار دیا ایمرجنسی کے بعد لگائے گئے ججز کی حیثیت نہیں تھی۔ عدالت نے ججز کو ہٹائے جانا بھی غلط قراردے کر بحال کیا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے سے قانون کے خلاف کام ختم کر سکتی ہے۔ جو بھی غلط ہوتا ہے اس کو سسٹم کو واپس لانے کے لیے ختم کیا جاتا ہے۔ کیس کی صورتحال کے مطابق ریلیف دیا جاتا ہے۔ آئینی خلاف ورزیوں کو سپریم کورٹ آئینی حل کے ذریعے درست کرتی آئی ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 66 کہتا ہے کہ سیاسی جماعت اپنے ٹکٹ جاری کرتی ہے۔ اس میں تیسرے فریق کی اجازت کا تصدیق درکار نہیں ہوتی۔

معزز ججز کے سوالات اور سلمان اکرم راجہ کے جوابات

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا کوئی ثبوت دیا تھا؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ پارٹی ٹکٹ جمع کرائے گئے تھے اور ججز کی اکثریت نے اس کو تسلیم بھی کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا اکثریتی فیصلے میں پارٹی ٹکٹ کے معاملے پر آبزرویشنز شامل ہیں؟ سلمان اکرم راجہ کا جواب تھا کہ فیصلے میں پوری تفصیل دی گئی ہے جو وقت کی قلت کی وجہ سے پورا نہیں پڑھ رہا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سیاسی جماعت تو موجود تھی مگر کچھ نے پارٹی سے وابستگی شامل کی کچھ نے نہیں کی؟

آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے  کہ آپ کے 39 امیدواروں نے اپنی وابستگی ظاہر کی، باقیوں نے تو نہیں کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کے 39 امیدواروں کی طرح باقی 41 بھی بیان حلفی جمع کرا دیتے۔ اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ انہوں نے تمام دستاویزات جمع کرائی ہیں، سب نے پی ٹی آئی سے وابستگی ظاہر کی تھی۔

الیکشن کمیشن نے آئین سے روگردانی کی یا سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے؟

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ تو جتنی مرضی دستاویزات جمع کرا سکتے ہیں، یہ تو آپ کا پرائیویٹ ریکارڈ ہے، پبلک دستاویزات نہیں ہیں۔ اس پر وکیل نے کہا کہ میں نے کیس سے متعلقہ ہی دستاویزات جمع کرائے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ اب دیکھنا تو یہ ہے الیکشن کمیشن نے آئین سے روگردانی کی یا سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے۔

اس موقع پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے سلمان اکرم راجہ سے پوچھا کہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت کوئی ایکشن لیا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ انہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے سمیت تمام اقدامات کو چیلنج کیا تھا۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ  آپ کا ذاتی کیس تھا یا پی ٹی آئی کا؟ سلمان اکرم راجہ نے موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے 24 دسمبر 2023 کو قرار دے دیا تھا کہ پی ٹی آئی جماعت نہیں ہے،الیکشن کمیشن کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے یہ پورا معاملہ اس حد تک بگڑا۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ انٹراپارٹی الیکشن تو الیکشن کمیشن نے نہیں مانا تو اس کو کسی نے درست قرار دیا؟ وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ تسلیم کر لیا تھا۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے، جب آپ نے تسلیم کر لیا کہ انٹراپارٹی الیکشن درست نہیں ہوئے تو اس کے نتائج تو ہوں گے۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے 11 ججز نے الیکشن کمیشن کی رول 94 کی وضاحت کو غلط قرار دیا۔ رول 94 کی وضاحت کو بنیاد بنا کر الیکشن کمیشن نے ہمیں انتخابی نشان اور مخصوص نشستوں سے محروم کیا۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ جب انٹرا پارٹی الیکشن نہیں تسلیم ہوئے تو بیرسٹر گوہر چئیرمین تو نہ ہوئے۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ یہ ایک الگ معاملہ ہے اور اس کی وضاحت الگ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے انٹراپارٹی انتخابات درست نہ ہوں تو نگران سیٹ اپ تو ہوتا ہو گا! سلمان اکرم راجہ کا جواب تھا کہ پارٹی کا سیٹ اپ ختم نہیں ہو جاتا یہ تو سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے۔

آپ نے انٹراپارٹی الیکشن دوبارہ کیوں نہیں کرائے؟ جسٹس مسرت ہلالی

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آپ نے انٹراپارٹی الیکشن دوبارہ کیوں نہیں کرائے؟ وکیل نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی الیکشن دوبارہ کرائے تھے وہ بھی چیلنج ہو گئے، مرکزی کیس میں الیکشن کمیشن نے کئی دستاویزات لا کر دیں اور 2 دن لگا کر ہم نے ان پر بحث کی تھی۔ الیکشن کمیشن کے اقدامات کو جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس جمال مندوخیل نے بھی غلط قرار دیا۔ الیکشن کمیشن فیصلے کے بعد بھی کسی فہرست کو تسلیم نہیں کر رہا تھا۔ 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان سے محروم کیا اور 23 کو کہا فہرستیں تسلیم نہیں کریں گے۔ جب کاغذات نامزدگی کی آخری تاریخ پر پی ٹی آئی کی وابستگی تسلیم نہیں کی تو عدالتوں میں آنا پڑا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ پر تو آپ کی کوئی فہرستیں نہیں ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ہم سے کوئی فہرستیں نہیں لے رہا تھا ہم نے اپنی ویب سائٹس پر اپلوڈ کیں۔ یہ ہماری فہرستیں نہیں لے رہے تھے ہم لاہور ہائیکورٹ گئے اور پھر انہوں نے اسکروٹنی کی میعاد بڑھائی۔ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی تسلیم نہیں کر رہا تھا تو کچھ امیدواروں نے آزاد کاغذات جمع کرائے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ 1995میں جب پارٹی الیکشن ہوئے تو امیدواروں نے عوام دوست کا لیبل استعمال کیا تھا، کیا آپ نے پارٹی کی حیثیت کے بغیر کوئی ایسی اصطلاح استعمال کی کہ لوگ سمجھ جائیں؟ سلمان اکرم راجہ کا جواب تھا کہ سر! ہم نے ’خان کا سپاہی‘ جیسی اصطلاح استعمال کی تھیں، تبھی ووٹ پڑے۔ مجھے بانی پی ٹی آئی کے نام پر 1 لاکھ 60 ہزار ووٹ پڑے۔ ہم بانی پی ٹی آئی کی تصویر والے بینر لگاتے، روزانہ رات ان کو پھاڑ دیا جاتا اور صبح پھر لگاتے۔ ہمیں اتھارٹیز کہتی تھیں کہ الیکشن کمیشن کے احکامات ہیں کہ جہاں پی ٹی آئی لکھا ہو وہ بینر پھاڑ دو۔

جسٹس ہاشم کاکڑ کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ

سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ پاکستان کی تاریخ ہے کہ پارٹیوں کو جنرل سیٹوں کی بنیاد پر مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں،  5 یا 6 آزاد امیدواروں کے آنے سے تھوڑا فرق پڑتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ 33 فیصد سیٹیں لینے والی جماعت کو ایک بھی سیٹ نہ دی جائے،

اس موقع پر  جسٹس ہاشم کاکڑ نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رول 94 کی موجودگی میں آپ کے تمام دلائل غیر ضروری ہیں، رول 94 کی موجودگی میں چاہے کسی نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی لکھا یا نہیں فرق نہیں پڑتا۔ آپ رول 94 پر دلائل دیجیے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم نے رول 94 کو عدالتوں میں چیلنج کیا تھا، لاہور ہائیکورٹ نے دوبارہ الیکشن کمیشن بھیج دیا، ہم سپریم کورٹ میں آئے، سپریم کورٹ نے الیکشن سے پہلے ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کیے، اکثریتی فیصلے میں ججز نے رول 94 کو کالعدم قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے پاکستان کے عوام کو حق دینا ہے، آپ نے مجھے یا کسی اور کو ریلیف نہیں دینا ہے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ سوال اس وقت تک سوال رہتا ہے جب تک آپ کو اس کا جواب معلوم نہ ہو۔ جب تک 94 کی ایکسپلینیشن آئین کا حصہ رہے گی باقی باتیں انرریلونٹ بن جاتی ہیں۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 8 ممبر ججمنٹ نے رول 94 کو الٹرا وائریز ڈیکلئیر کیا، 25 دسمبر کو فیصلہ آیا ہے، 31 دسمبر کو ہم عدالت آئے، ہم عدالت گئے وہاں درخواست دائر کی اس کے بعد کیس چلا۔ انہوں نے کہا کہ 8 فروری کے بعد ہمارے پاس 3 دن تھے کسی بھی سیاسی جماعت کو جوائن کرنے کے لیے۔

جسٹس مسرت ہلالی کے سوالات

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات کتنے امیدواران نے جیتے تھے؟ کیا انہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا؟  جب پارلیمانی پارٹی نہیں ہے تو کیسے مخصوص نشستوں کی لسٹ میں 81 کو شامل کیا؟ کیا اس کو پہلے پارلیمانی پارٹی ڈیکلیئر کیا؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ عدالتی حکم پر ہم نے لسٹیں جمع کروا دی تھیں۔ جب ہم نے جمع کروائیں، ہمیں واپس ہو گئیں، پھر ہم عدالت گئے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ اپ نے مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع کب کروائی تھی؟ 24 تک آپ کو یقین تھا کہ پاکستان تحریک انصاف ہو گی اس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے 2 فروری کا آرڈر 7 فروری کو جاری کیا، پاکستان تحریک انصاف الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتی الیکشن کمیشن الیکشن سے ایک دن پہلے یہ آرڈر کرتا ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے اپنے مزید دلائل میں کہا کہ اکثریتی فیصلے میں حقائق کے علاوہ حالات کو دیکھا گیا۔ اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ کیا جو جماعت پارلیمانی نہ ہو اسے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 10 ججز نے کہا پی ٹی آئی پارلیمانی جماعت ہے، اس وقت حالات ایسے بنے کہ امیدوار آزاد بنا دیئے گئے، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو کوئی نشست نہیں دینا چاہتا، الیکشن کمیشن دوسری جماعتوں کو نشستیں دینا چاہتا ہے، دوسری جماعتوں کو اضافی نشستیں دینا غیر آئینی ہوگا،

 انہوں نے نکتہ اٹھایا کہ نظرثانی درخواستیں کس بنیاد پر منظور کی جائیں گی، کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ نظرثانی محدود ہے، جسٹس محمد علی مظہر کے نظرثانی سے متعلق فیصلے موجود ہیں۔

اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ مختلف مقدمات میں نظرثانی کا دائرہ سماعت مختلف ہوتا ہے۔ اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ جہاں غیر آئینی کام ہو صرف وہ فیصلہ نظرثانی میں آسکتا ہے۔کسی کو اضافی نشستیں دی گئیں تو یہ پارلیمنٹ کے کام میں خلل ڈالنا ہوگا، انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ ہونا چاہیے، آرٹیکل 185 کو 184 تین کیساتھ ملا کر دیکھا جاسکتا ہے۔

 سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان کے دلائل کا آغاز

کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل ہوئے تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان دلائل کے لیے روسٹرم پر آگئے۔ انہوں نے کہا کہ  مجھے 23 سے چھٹی دے دی گئی ہے۔

اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ سینئر ہیں، بتانا مناسب نہیں ہوگا۔ سارے دلائل ہو چکے۔ آپ دوسری سائیڈ سے تیسرے وکیل ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ اگر عدالت میری التوا کی درخواست مسترد کرتی ہے تو بتادیں۔ اس پر آئینی بینچ کے سربراہ نے کہا کہ جی! ہم آپ کی التوا کی درخواست مسترد کرتے ہیں۔

حامد خان نے اپنے دلائل کے آغاز میں کہا کہ جو کچھ سلمان اکرم راجہ اور فیصل صدیقی نے بتا دیا اس میں کچھ بھی نہیں دہراؤں گا۔ اس پر آئینی بینچ کے سربراہ نے کہا کہ آپ کا کیس تو شروع ہی وہیں سے ہوتا ہے جو آزاد اراکین سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کہ میں کیس میں اپنے طریقے سے دلائل دوں گا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو ختم کیا گیا۔ عام انتخابات 90 دن کی آئینی مدت میں نہیں کرائے گئے۔ عام انتخابات کو 9 نومبر 2023 کو ہونا چاہیے تھا۔ صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تا کہ 90 دن میں انتخابات کے مطابق تاریخ کا فیصلہ کر سکیں۔ الیکشن کمیشن نے جواب میں بدنیتی ظاہر کی اور کہا ہم حلقہ بندی کر رہے ہیں۔ اس وقت کی نگران حکومت نے قرار دے دیا کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان صدر نہیں، الیکشن کمیشن کرتے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ پھر بعد میں عدالت سے انتخابات کی تاریخ ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اس میں آپ کے کیس کے متعلقہ کچھ نہیں ہے۔

حامد خان نے کہا کہ میں جب تمام حقائق بتا کے دلائل دوں گا تو آپ کو سمجھ آ جائے گا کہ یہ کیسے متعلقہ ہے۔ میری پوری بات سنے بغیر یہ نہ کہیں کہ کیا متعلقہ ہے اور کیا غیر متعلقہ۔ انہوں نے کہا کہ 13 جنوری کو پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کا کیس یہاں لگا تھا، 12 جنوری کو اس کیس کا تفصیلی فیصلہ پشاور ہائیکورٹ سے جاری ہوا، میں نے استدعا کی تھی کہ فیصلہ پڑھنے دیں 15 جنوری کی تاریخ رکھ دیں۔ اس بینچ میں بیٹھے 2 ججز اس بینچ کا حصہ تھے۔ میری استدعا پر کہا گیا پھر ہم پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیں۔ ہمارے لیے یہ بھی حیران کن تھا۔ وہی دن انتخابی نشان الاٹ ہونے کا آخری دن تھا۔ ہفتے کا دن تھا، چھٹی تھی لیکن یہاں رات 11 بجے تک کیس لگایا گیا۔ ہمارے امیدوار انتظار کرتے رہ گئے کہ کیا فیصلہ آئے گا۔ آدھی رات کو ہم سے انتخابی نشان چھین لیا گیا۔ دوسری جانب انتخابی نشان حاصل کرنے کا وقت ختم ہو گیا۔ اس کے بعد ہم کہاں کھڑے تھے؟ کیا ہم ایسی صورتحال میں الیکشن کا بائیکاٹ کرتے؟ دوسری جانب یہی الیکشن کمیشن اے این پی کو وقت دے رہا تھا۔ اے این پی نے الیکشن کروایا ہی نہیں تھا صرف جرمانہ کیا گیا۔ میں نے کہا کہ ہم تو الیکشن کروا چکے، آپ نہیں مان رہے۔ میں نے کہا آپ ہمیں زیادہ جرمانہ کر کے مزید وقت دے دیں۔ ایک ہی دن اے این پی اور ہمارے ساتھ الگ الگ برتاؤ کیا گیا۔

اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اے این پی کو پہلی بار موقع دیا گیا تھا، آپ کو اس سے پہلے کئی سال سے وقت دیا جا رہا تھا۔ آپ کے اپنے پارٹی آئین میں چیزوں کو فول پروف بنایا گیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا پارٹی آئین زیادہ اچھا ہے۔ یہ سن کر حامد خان بولے کہ ہمیں وہ اچھا آئین بنانے کی سزا مل گئی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم تو آپ کے پارٹی آئین کی تعریف کر رہے ہیں۔

کیا خیبرپختونخوا میں بھی ایسا ہی الیکشن ہوا؟

حامد خان نے کہا کہ 8 فروری کی رات کئی لوگ ہار مان کر گھر گئے، اگلے روز ان کو بلا کر وکٹری سپیچ کروا دی گئی۔ سلمان اکرم راجہ، شعیب شاہین، علی بخاری کی مثال سامنے ہے۔ خواجہ آصف رات کو 27 ہزار ووٹ سے ہار گئے تھے۔ اگلے روز وہ جیت گئے اور وزیر بھی بن گئے۔ اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آراوز نے پورے ملک میں ایسا ہی کیا؟ کیا خیبرپختونخوا میں بھی ایسا ہی الیکشن ہوا؟

حامد خان نے جواب دیا کہ خیبرپختونخوا میں پھر بھی بہتر آر اوز تھے۔ فیصل آباد میں بھی آراوز نسبتاً بہتر تھے۔ 40 سال میں پہلی بار آر اوز ایگزیکٹو سے لیے گئے۔

جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ عدلیہ کے آراوز پر پھر کہاجاتا تھا کہ عدلیہ نے دھاندلی کردی۔ حامد خان نے کہا کہ عدلیہ کے آراوز جیسے بھی تھے، ان سے بہتر تھے۔ پہلی بار تھا کہ چیف الیکشن کمشنر بھی ’نان جوڈیشل‘ تھا۔

اس پر دلچسپ صورت حال دیکھنے کو ملی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ یہ الیکشن کمشنر کس نے لگایا تھا؟ حامد خان بولے کہ جس نے بھی لگایا تھا کیا فرق پڑتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ آپ کہہ رہے ہیں جس نے بھی لگایا اچھا نہیں کیا تھا؟ اس پر حامد خان نے جواب دیا کہ غلطی میری پارٹی کرے یا کوئی اور کیا فرق پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلے کے نشان پر نظر ثانی 21 اکتوبر 2024 کو مقرر کی گئی۔ 20 سے 21 اکتوبر کے درمیان 26ویں ترمیم ہو گئی، میں نے اگلے دن پیش ہو کر کہا میں ایک جانبدار جج کے سامنے دلائل دینا نہیں چاہتا۔ 26ویں ترمیم کے مطابق بینچ پر اعتراض بھی کیا مگر درخواست خارج کر دی گئی۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ وہ جج صاحب یہاں موجود نہیں ہیں، بہتر ہے کہ آپ ان کے بارے بات نہ کریں۔ حامد خان نے کہا کہ میں تو حقائق پیش کر رہا ہوں۔ جج صاحب نے نظر ثانی یہ کہہ کر خارج کر دی کہ میں دلائل دینا نہیں چاہتا، وجہ نہیں لکھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیوں دوسرے کیس کو یہاں لا رہے ہیں؟ حامد خان نے کہا کہ میں بتا رہا ہوں کیسے ایک جماعت کو نشانہ بنایا گیا۔

’حل آپ سیاستدانوں نے نکالنا ہے ورنہ آپ بار بار ہمارے سامنے ہوں گے‘

جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ فیصل صدیقی نے کہا انصاف مانگ رہے ہیں جو فاطمہ جناح مانگ رہی تھیں۔ فاطمہ جناح کے ساتھ بھی ہوا، پی ٹی آئی پہلی نہیں ہے۔ پہلے بھی کہا کہ حل آپ سیاستدانوں نے نکالنا ہے ورنہ آپ بار بار ہمارے سامنے ہوں گے۔

حامد خان نے کہا کہ جب تک سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کی غلامی کریں گے، یہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے بعد آزاد امیدواروں کے پاس تین دن تھے۔ ایک بازار لگ چکا تھا لوگوں کو توڑا جا رہا تھا۔ کہیں بچے اٹھا کر کہا جا رہا تھا کہ فلاں پارٹی میں جاؤ۔ ہم نےاپنے کامیاب امیدواروں کو کہیں تو پارک کرنا تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم سنی اتحاد کونسل میں چلے جاتے ہیں۔ یہاں یہ حالات مدنظر رکھیں کہ ہم کیسے سنی اتحاد کونسل میں گئے۔ عملی طور پر سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی میں فرق نہیں۔

اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ دلیل اکثریتی فیصلے کیخلاف چلی جائے گی۔ جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے آپ کی توقع سے بڑھ کر آپ کو ریلیف دیا تھا، آپ کے ایک لیڈر کا بیان بھی تھا کہ اتنی تو توقع نہیں تھی۔

حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تاریخ دیکھتے ہوئے توقع نہیں تھی۔ سپریم کورٹ کبھی دائیں تو کبھی بائیں لے جاتی رہی۔ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ نے مکمل انصاف کیا۔

حامد خان کے دلائل ابھی جاری تھی کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp