جرمنی میں پولیس نے نفرت انگیز مواد کے خلاف ملک گیر کارروائی کرتے ہوئے 65 مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔
یہ کارروائیاں وفاقی اور ریاستی پولیس نے مشترکہ طور پر 26 جون کو کیں، جن کا مقصد سوشل میڈیا پر نازی نظریات، نسلی، مذہبی اور جنسی اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے افراد کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی اے کی سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں کیخلاف رپورٹ کی اپیل
حکام کے مطابق کئی گھروں سے لیپ ٹاپ، موبائل فون اور دیگر ڈیجیٹل آلات قبضے میں لیے گئے تاکہ ایسے صارفین کی شناخت کی جا سکے جو آن لائن نفرت انگیز بیانات دیتے ہیں۔
انسپکٹر جنرل ہولگر مینخ نے کہا کہ یہ کارروائی اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ جو بات آپ عوام میں نہیں کہہ سکتے، وہ آن لائن بھی کہنا غلط ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس ان اقدامات کے ذریعے یہ پیغام دے رہی ہے کہ انٹرنیٹ قانون سے آزاد جگہ نہیں ہے۔
جرمنی میں نفرت انگیز مواد سے متعلق قوانین بہت سخت اور وسیع ہیں، جن کے تحت کسی بھی ایسے بیان کو جرم سمجھا جاتا ہے جو کسی نسل، مذہب، قومیت یا طبقے کے خلاف ہو یا دوسروں کے خلاف نفرت کو ہوا دے۔
یہ بھی پڑھیں:ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے والوں کیخلاف کارروائی کا آغاز
2021 سے 2024 کے درمیان ایسے کیسز کی تعداد تقریباً 4 گنا بڑھ گئی ہے، جو 2,400 سے بڑھ کر 10,700 سے تجاوز کر چکی ہے۔
جرمن حکومت کا مؤقف ہے کہ ایسے قوانین ملک کے جمہوری ڈھانچے کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ جرمنی ماضی میں نازی حکومت کا شکار رہا ہے۔
حکام کے مطابق آن لائن نفرت کے بڑھتے رجحانات نہ صرف معاشرے میں انتشار پیدا کرتے ہیں بلکہ حقیقی تشدد کو بھی جنم دے سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پنجاب کابینہ نے اداروں کیخلاف ’نفرت انگیز بیانیہ‘ بنانے پر عمران خان کے خلاف کارروائی کی منظوری دیدی
تاہم ان اقدامات پر عالمی سطح پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس اور معروف کاروباری شخصیت ایلون مسک نے اس کارروائی کو آزادی اظہار پر حملہ قرار دیا ہے۔
ایلون مسک نے اسے ’انتہائی خطرناک رجحان‘ کہا جبکہ وینس کا کہنا تھا کہ یورپ میں آزادی اظہار کی قیمت ادا کی جا رہی ہے۔
جرمنی میں کیے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق، تقریباً 43 فیصد شہری آن لائن اپنی رائے ظاہر کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور 44 فیصد شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی موضوعات پر بات کرتے ہوئے محتاط رہتے ہیں۔
یہ تناسب 1990 میں صرف 16 فیصد تھا، جو اب کئی گنا بڑھ چکا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اظہار رائے کی فضا محدود ہو رہی ہے۔
یہ ساری کارروائی جرمن قانون ’نیٹ ورک انفورسمنٹ ایکٹ‘(کے تحت عمل میں آئی، جس کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور گوگل وغیرہ کو 24 گھنٹوں کے اندر اندر نفرت انگیز اور غیر قانونی مواد ہٹانا لازمی ہے، بصورت دیگر انہیں 50 ملین یورو تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
جرمن حکومت کا دوٹوک موقف ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے بھی ایسی زبان یا مواد کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو دوسروں کے لیے خطرہ یا نفرت کا باعث بنے۔