بھارتی دائیں بازو کی قوتیں ظہران ممدانی کی کامیابی پر برہم کیوں ؟

جمعہ 27 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ظہران کوامے ممدانی کی نیویارک سٹی کے ڈیموکریٹک میئرل پرائمری میں کامیابی نے بھارت اور امریکا  میں موجود ہندو قوم پرست حلقوں اور بھارتی تارکین وطن کے بعض طبقوں میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔

یہ تنقید اور بعض اوقات کھلی دشمنی ان کی مذہبی اور نسلی شناخت، سیاسی نظریات، اور بھارت و فلسطین کے بارے میں ان کے کھلے بیانات سے جڑی ہوئی ہے۔

33 سالہ بھارتی نژاد امریکی، مسلمان اور جمہوری سوشلسٹ ظہران ممدانی نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر کھلی تنقید کی، فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، اور ترقی پسند نظریات اپنائے، جن کی وجہ سے بھارتی میڈیا اور ایکس سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ان کے خلاف مہم تیز ہو گئی۔

حال ہی میں ظہران ممدانی نے نریندر مودی کو ’جنگی مجرم‘ قرار دیا اور ان کا موازنہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے کیا، جس کا حوالہ 2002 کے گجرات فسادات کے تناظر میں دیا گیا۔ اس بیان پر بھارتی نژاد امریکی رہنماؤں نے سخت ردعمل دیا اور ظہران ممدانی پر امریکا  کی مقامی سیاست میں ’تقسیم پیدا کرنے والا بیانیہ‘ اپنانے کا الزام عائد کیا۔

ظہران ممدانی نے ٹائمز اسکوائر میں ایک احتجاج کی قیادت کی جس میں ایسے نعرے لگائے گئے جو دائیں بازو کے ہندوؤں کو ناگوار گزرے، یہ مظاہرہ مبینہ طور پر سکھ حقوق کے حامیوں کے ساتھ مل کر منعقد کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے بھارت میں مزید غصہ پیدا ہوا کیونکہ ظہران ممدانی کو انتہا پسند تحریکوں سے جوڑا جا رہا ہے۔

ظہران ممدانی نے ’گلوبلائز دی انتفاضہ‘ کے نعرے کی بھی کھل کر حمایت کی، جسے انہوں نے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی قرار دیا، ان کے بیانات پر بھارتی نژاد امریکی برادری میں خاصا ردعمل سامنے آیا، خاص طور پر ان افراد کی طرف سے جو ان کی باتوں کو اشتعال انگیز اور تقسیم پیدا کرنے والی سمجھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:نیویارک میئر کے لیے امیدوار ظہران ممدانی اور امریکی صدر ٹرمپ آمنے سامنے

ظہران ممدانی پر ہونے والی تنقید صرف نظریاتی نہیں بلکہ مذہبی اور نسلی تعصب پر بھی مبنی ہے، کئی ہندو قوم پرستوں نے ان کی مسلم شناخت اور بھارتی پس منظر کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں ’غیرملکی‘ یا ’ملک دشمن‘ قرار دیا، سوشل میڈیا، رائے مضامین، اور قوم پرست فورمز پر انہیں بھارت مخالف قرار دیا جا رہا ہے، حالانکہ وہ خود بھارتی نژاد ہیں۔

یہ رجحان اس وسیع تر مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارتی مسلمان دانشوروں کو صرف ان کے نظریات نہیں بلکہ ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، دائیں بازو کے غصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کی آواز کے لیے جگہ کم ہوتی جا رہی ہے۔

یہ غصہ جلد ہی ایکس سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیل گیا، جہاں کمنٹیٹرز نے ظہران ممدانی پر سخت تنقید کی۔ ایک وائرل پوسٹ میں انہیں ’جہادی میئر‘ مخاطب کرتے ہوئے الزام لگایا گیا کہ وہ ہندوؤں اور یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں، یہی نہیں بلکہ ان کے والد ماہر تعلیم محمود ممدانی اور والدہ فلمساز میرا نائر کو بھی دوغلے قرار دیا گیا۔

مزید پڑھیں:ٹرمپ نے نیو یارک کے امیدوار برائے میئرشپ ظہران ممدانی کو ’کمیونسٹ پاگل‘ قرار دیدیا

ایک اور صارف نے لکھا کہ وہ بھارتی کمیونٹی کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر رہے ہیں اور ہندوؤں کو فسطائی کہہ کر ان کی توہین کر رہے ہیں، جو ناقابلِ قبول ہے، امریکی کانگریس کے کئی ریپبلکنز اور دائیں بازو کے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد نے بھی ایکس پر نفرت آمیز بیانات دیے۔

قدامت پسند شخصیت لورا لوومر نے دعویٰ کیا کہ ظہران ممدانی امریکیوں کو قتل کرانا چاہتے ہیں، ایک اور پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ مسلمان اب نیویارک میں جہاد شروع کریں گے۔

قدامت پسند کارکن چارلی کرک نے 9/11 کے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 24 سال پہلے مسلمانوں نے 2,753 افراد کو مارا، اب ایک مسلمان سوشلسٹ نیویارک کا میئر بننے جا رہا ہے۔

ایک بھارتی سیاسی مبصر نے ظہران ممدانی کی جیت کو مشہور ٹی وی سیریز ڈیئرڈیول (Daredevil)  کے ولن ’ولسن فسک‘ کے میئر منتخب ہونے سے تشبیہ دی۔

یہ تمام بیانات اس بڑھتے رجحان کی عکاسی کرتے ہیں جہاں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو، خاص طور پر ان افراد کو جو ہندوتوا یا اسرائیلی پالیسیوں کے ناقد ہوں، سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ظہران ممدانی  کی جیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ فلسطین، بھارت کی سیاست، اور مذہبی شناخت جیسے عالمی مسائل اب امریکا  کے مقامی انتخابات پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں، چاہے انہیں آپ ایک مثبت انقلابی سمجھیں یا متنازع شخصیت، ان پر ہونے والا ردعمل یہ واضح کرتا ہے کہ آج کی سیاست میں شناخت اور نظریہ کتنی گہری اہمیت رکھتے ہیں۔

شناختی سیاست: دائیں بازو اتنا مشتعل کیوں ہے؟

ظہران  ممدانی  کی سیاست ان کے خاندانی پس منظر سے جڑی ہے، جو نوآبادیاتی نظام کے خلاف اور فلسطین کی حمایت پر مبنی جدوجہد سے عبارت ہے۔ ان کے درمیانی نام ’کوامے‘ کا تعلق ان کے افریقی ورثے سے ہے، جو ان کے والد کی جانب سے ہے۔ یہ نام گھانا کے پہلے صدر ’کوامے نکروما’ کی یادگار ہے، جو پین افریقن تحریک کے اہم رہنما تھے۔

ان کے والد محمود ممدانی  نے ایک بار کہا تھا کہ یہودیوں کو ایک وطن کا حق ہے، مگر ریاست کا نہیں، جس پر انہیں اسرائیلی حامی حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی والدہ میرا نائر نے اسرائیل کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجاً 2013 میں حیفہ فلم فیسٹیول میں شرکت سے انکار کر دیا تھا اور وہ ’بائیکاٹ، سرمایہ نکالو، پابندیاں لگاؤ‘ تحریک کی حامی ہیں۔

 

ظہران  ممدانی نے فلسطینیوں کے لیے اسٹوڈینٹس فارجسٹس ان فلسطین گروپ کی بنیاد رکھی، وہ بلیک لائفس میٹر کی حمایت کرتے ہیں، اور ودان اور لائف ٹائم نامی فلسطین حامی تنظیم سے بھی وابستہ ہیں، ان کے یہ نظریات انہیں عالمی بائیں بازو کی تحریک کا حصہ بناتے ہیں، جبکہ وہ ہندوتوا اور صیہونی نظریات سے ٹکرا جاتے ہیں۔

ان کی مسلم اور بھارتی شناخت، فلسطینی حمایت اور ہندوتوا پر تنقید انہیں بھارت اور امریکا ، دونوں ممالک کی مرکزی سیاست سے الگ ایک نظریاتی شخصیت بنا دیتی ہے، ان کے پس منظر اور نظریاتی وابستگیوں کی وجہ سے جو ردعمل آیا ہے وہ پالیسی سے زیادہ شناخت پر مبنی ہے، جو مغربی دنیا میں اقلیتی سیاست دانوں کو درپیش ایک مسلسل چیلنج ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

اسلام آباد پولیس جنید اکبر اور دیگر کی گرفتاری کے لیے کے پی ہاؤس پہنچ گئی

ہندو برادری کے افراد کو داخلے سے روکنے کی بات درست نہیں، پاکستان نے بھارتی پروپیگنڈا مسترد کردیا

کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، ہم سب انسان ہیں، امیتابھ بچن نے ایسا کیوں کہا؟

پارلیمنٹ ہاؤس سے سی ڈی اے اسٹاف کو بیدخل کرنے کی خبریں بے بنیاد ہیں، ترجمان قومی اسمبلی

ترکی میں 5 ہزار سال پرانے برتن دریافت، ابتدائی ادوار میں خواتین کے نمایاں کردار پر روشنی

ویڈیو

کیا پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات ایک نیا موڑ لے رہے ہیں؟

چمن بارڈر پر فائرنگ: پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور تعطل کے بعد دوبارہ جاری

ورلڈ کلچرل فیسٹیول میں آئے غیرملکی فنکار کراچی کے کھانوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

کالم / تجزیہ

ٹرمپ کا کامیڈی تھیٹر

میئر نیویارک ظہران ممدانی نے کیسے کرشمہ تخلیق کیا؟

کیا اب بھی آئینی عدالت کی ضرورت ہے؟