وہ تھی ہی سراپا غزل، انگ انگ میں بجلی سی بھری تھی، اس کی چال میں رقص تھا، ہر قدم کتھک کا کوئی نیا انگ دکھتا تھا۔ اس نے نہ رقص سیکھا اور نہ ہی رقاصہ بننے کی خواہش کی مگر یہ ترنگ اس کے وجود میں تھی۔
شاعر اکثر اس کی حسین سانچے میں ڈھلی پنڈلیوں کو تکتا رہتا۔ اُس نے کبھی اس کے قدم زمین پر ٹکے نہیں دیکھے تھے، پیروں کی انگلیاں ہوا میں یوں لہراتیں جیسے کوئی ’بیلے رینا‘ ہو۔
سرو قامت، دلکش چہرہ اور غزال کی سی چال ایسی تھی کہ اس کا سانس رک رک جاتا تھا۔ سنگِ مرمر سے ترشا جسم ایسا تھا جیسے مصرعوں سے گندھا ہو۔ ایڑی اور پنجوں کے درمیان ایک دلفریب ہالہ بنتا تھا، اسی لیے وہ قدم ایسے بڑھاتی جیسے ’تتکار‘ کا چلن کر رہی ہو۔ چلبلی سی چال میں کمر کے خم بلا خیز اور ہنسی میں الھڑ پن جھرنوں کے نغموں جیسا تھا۔
آدھی آستینوں سے اس کے بھرے بھرے بازو مکھن کی طرح ملائم محسوس ہوتے۔ مخروطی انگلیاں کوئی کتھا سناتے ہوئے فضا میں ایسے تھرکتی جیسے کتھک کا کوئی مُدرا پیش کر رہی ہوں، بعض سمے تو وہ مندر میں رکھی حسین دیوی کی مانند لگتی۔ اس سے عشق ہو جانا کمال نہیں تھا اس کی محبت میں مبتلا نہ ہونا واقعہ ہوتا، یہی شاعر کے ساتھ بھی ہوا۔
شاعر ہوتے ہوئے بھی جب اس پر نگاہ پڑتی تو سب حرف دھندلا جاتے۔ لفظ، ردیف، قافیہ، بحر معدوم بلکہ نامعلوم ہو جاتے۔ اس کے سراپے کے تصور میں شعر بنتا، لکھتا ، کاٹتا اور پھر لکھتا، لیکن حرف اس کے سراپے کا احاطہ کرنے میں ہمیشہ بے بس اور بے کس نظر آتے۔
شاعر کو وہ دن بھی یاد تھا جب ایک صبح اس پر نظر پڑی، سورج اس کے چہرے پر دمک رہا تھا، کرنیں اس کے وجود کو جگمگا رہی تھیں۔آدھے سویرے کی روشنی اس کے دودھیا چہرے کو مزید تابناک بنا رہی تھیں اور وہ گدگدے ہاتھوں سے چہرے کو ان کرنوں سے بچاتے ہوئے ایسے جلدی جلدی کام کر رہی تھی جیسے اسے اپنی دلکشی کا احساس ہی نہیں۔
اس نے اس روشنی کی سبک کرن کو دیکھا اور وہ لمحہ اس کے دل میں ٹہر گیا۔ وقت تھم گیا، سب کچھ ساکت و منجمد ہو گیا۔ تاہم وہ دیکھنے والے کے حال دل سے بے خبر وہ کام میں مگن رہی۔ اپنے پرستار کی خدمت پر جٹی رہی۔
شاعر کو اس کے نازک ہاتھ بہت پسند تھے مخروطی انگلیاں تھیں ہی ایسی جیسے ستار کی تار ہوں۔ وہ ہمیشہ ننگے پیر ایسے گھومتی جیسے پاؤں میں گھنگرو بندھے ہو، اور ان دیکھے گھنگھروں کی جھنکار شاعر کے دل پر گونجتی تھی۔
اس اپسرا کو کیسے دل کا حال سنایا جائے، کیونکر اس حسن کے مجسمے کو اپنایا جائے۔ اس خیال میں وہ لفظ لکھتا، غزل کہتا اور نظم بنتا تھا۔
اس کی ساڑھی میں رقص کرتی ایک تصویر چُرا کر اُس نے اپنے سرہانے سجا دی تھی۔ صبح بھی اس منظر سے ہوتی اور شام بھی اسی سراپے کو پالینے کی امید میں ڈھلتی۔
وہ چاہتا تھا کہ اظہار کی نوبت آئے، کوئی لفظ اس کی زبان پر اترے جو اس کی آرزو کو زبان دے سکے۔ مگر لفظ منکر اور حرف خاموش تھے۔
مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک دل کسی کی دھڑکن پر تال ملائے اور دوسرے کو خبر نہ ہو۔ ایک وقت آیا جب اظہار ثانوی ہو گیا اور جب اقرار بے معنی لگنے لگا۔ کسی نے کسی سے کچھ نہ کہا مگر تال سے تال مل گئی، دھن بجنے اور سُر ملنے لگے۔
ربط بڑھا توشاعر نے ہمت جُٹا کر حال دل بیان کر دیا، وہ خود نہیں جانتی کہ وہ کیا کرشمہ ہے، کتنی حسین ہے، تبھی تو وہ یہ سب سُن کر حیرت سے ایسے کھلکھلائی کہ کائنات رقص کرنے لگی۔
وہ خوشی اور غم کا اظہار کلا سیکل رقص موہنی آتم سے کرتی۔ اس رقص میں وہ خود خاموش رہتی مگر نگاہیں اظہار کرتی تھیں۔ وہ ہنستی بھی جھوم کر تھی اور آنکھوں میں آنسو بھی دیر تک پیرتے تھے۔
وہ مورنی اپنی چال میں جب کتھا کلی پیش کرتی تو مختلف مدارؤں کی مدد سے ہر جذبے کا اظہار کرتی، چاہے وہ خوشی ہو، جذب ہو ، طرب ہو یا الم۔ اس رقص میں وہ اپنے چہرے کے تاثرات سے مدعا یوں یبان کرتی کہ پھر کہنے کو کچھ نہیں رہ جاتا۔
محبت میں مبتلا ہو جانے والا شاعر پہروں رقاصہ کےخد و خال کے سحر میں گم رہتا۔ دنیا سے بے نیاز دونوں ہر وقت باتیں کرتے۔ بات بات پر بلا وجہ قہقہے لگاتے۔ معمولی سی اَن بَن بھی دونوں کو رُلا دیتی۔
وہ اس کے رقص پر فدا تھا اور وہ اس کے لفظوں کی شیرینی کی مداح تھی۔ رقص ان کے درمیان اثبات تھا۔ ان کے رشتے کا پل تھا۔ اس نے ہمیشہ اس کا ساتھ نبھانے اور اس کے فنِ رقص کو عروج پر پہچانے کا وعدہ کیا۔ اُسے اور چاہیے بھی کیا تھا سوائے اُس کی محبت اور اپنے فن کی قدر کے۔
اس سمے ایسا لگتا تھا کہ جیسے آس پاس صرف خوشیاں ہی خوشیاں بکھری ہیں۔ کوئی غم کوئی الم ان کو چھو کر نہیں گزرا تھا۔ لگتا تھا یہ لمحات ثبت ہو جائیں گے، تھم جائیں گے۔ شادی پر اس نے اسے قیمتی گھنگروں کا تحفہ دیا۔ یہ خراج تھا اس کی الفت کا، ثبوت تھا اس کے عشق کا۔ دونوں رقص کی باتیں کرتے ایک دوسرے کے عشق میں گندھے رہتے۔
وقت بہت بے رحم شے ہے۔ محبت کو دھندلا دیتا ہے، عشق کا بھلا دیتا ہے۔ وقت گزرا تو عشق میں بال آنے لگا۔ انداز اور زاویہ نظر بدلنے لگا۔ بحث و مباحثہ اب اختلاف بننے لگا۔ لہجے تلخ ہونے لگے، بیتے وقت کے وعدے کاٹ کھانے لگے۔
وہ شاعر کو اسکے پیمان یاد دلاتی اور وہ اسے زندگی کے حقائق کا درس دینے لگتا۔ وہ ساز کی بات کرتی تو وہ سامان کی بات کرتا۔ وہ محبت کے انگ کی بات کرتی تو مہنگائی کا دکھڑا بیان کرنے لگتا۔
دونوں کی دنیا الگ الگ ہونے لگی۔ شاعر معاش کی فکر میں کھو گیا۔ رقاصہ نے رقص کو اپنا لیا۔ وہ اس فن میں پختہ ہو کر نمایاں ہوگئی۔ کبھی ایک زمانہ اس کے رقص پر فدا تھا، اب ایک دنیا اس کی مدح سرائی میں مصروف رہتی۔
تعریف و توصیف کے بین ان دونوں میں رقابت کی دیوار کھڑی ہو گئی۔ شاعر کہتا تم ہو ہی میری تو تمھارا فن بھی میرے اختیار میں ہے۔ میں مالک ہوں تمہاری ہر لہر اور ہر چال کا۔
رقاصہ جواب دیتی کہ فن قید نہیں کیا جا سکتا نہ کسی گھر میں نہ کسی سرحد میں۔
وہ طنز کرتا کہ اب تمہیں اپنا آپ دنیا کو دکھانے کاشوق چرایا ہے؟ بدن کی کروٹوں کی داد لینے کا خیال آیا ہے۔
وہ کہتی تم لفظوں کو اشعار میں پرو کر داد وصول نہیں کرتے؟
وہ غصے سے پھنکارتا ۔۔۔ دونوں میں سے ایک کو چُن لو مجھے یا رقص کو۔
وہ دل تھام کر منت کرتی ۔۔۔ مجھے تم دونوں عزیز ہو۔
وہ حتمی فیصلہ سناتا ۔۔۔ یہ سب خرافات بہت ہوئیں اب شریف عورتوں کی طرح پیش آؤ، ناچ گانا ہمارا دستور نہیں۔
وہ ہمت کر کے بولتی۔۔۔ ٹھیک ہے تو تم بھی شاعری چھوڑ دو۔
وہ ہنس کر بولتا۔۔۔ میں مرد ذات ہوں اور یہ میرا شوق اور فن ہے جو قدرت نے مجھے عطا کیا ہے۔
وہ چلائی ۔۔ مجھے بھی اسی قدرت نے یہ فن بخشا ہے، میں رقص کیے بنا مر جاؤں گی۔ میری ساری نزاکت، لطافت جس کے تم شیدائی تھے سب ختم ہو جائے گی
اس کا اندر کا مرد جاگا اور اس کا ہاتھ یہ کہتے ہوئے اس ناچتی مورتی پر اٹھا ۔۔۔ افسوس کہ تم جیسی خراب عورت سے میں نے محبت کی۔
اس ایک لمحے میں سب ساز رک گئے۔ طبلے کی تھاپ تھم گئی اور ٹھیکہ رک گیا۔ رقص کی لہر ساکن ہو گئی۔ شاعر اور رقاصہ کے رشتے میں آخری دراڑ پڑ گئی۔ اس جاں گسل لمحے کے بعد ان دونوں کے رشتے میں بس پچھتاوا رہ گیا۔ محبت کی کھنک درد کی کسک میں بدل گئی۔
اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ کہانی کسی فلم کی کہانی ہے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ کہانی سچی کہانی ہے۔ ہر اس عورت کی کہانی ہے جو کسی بھی فن میں معراج حاصل کرتی ہے۔ یہی پچھتاوا یہ سماج اس کو عطا کرتا ہے۔ عورت کی ناکامی اس معاشرے کو خوش دیتی ہے، کسی بھی ہنر میں کامیاب عورت بدقسمتی سے مرد ذات کے لیے چیلنج بن جاتی ہے۔