سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ایک بار پھر سیکرٹری جوڈیشل کمیشن کو خط لکھ کر ججز کی سینیارٹی کے تعین کے طریقہ کار پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، یہ خط گزشتہ روز ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے قبل تحریر کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے صدر مملکت کی جانب سے سینیارٹی کے ازخود تعین پر سوالات اٹھاتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ صدر پاکستان کو سینیارٹی کے تعین سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت کرنی چاہیے تھی، جو آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت لازمی قرار دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے جوڈیشل کمیشن نے چاروں ہائیکورٹس کے مستقل چیف جسٹس صاحبان کے ناموں کی منظوری دے دی
خط میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت نے جلدبازی میں مشاورت کے بغیر سینیارٹی کا تعین خود ہی کر دیا، جو نہ صرف قانونی سوالات کو جنم دیتا ہے بلکہ عدالتی آزادی کے اصولوں سے بھی متصادم ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ معاملہ پہلے ہی ایک انٹرا کورٹ اپیل میں زیر سماعت ہے، لہٰذا اس پر کسی حتمی فیصلے سے گریز کرنا چاہیے۔
ذرائع کے مطابق، خط میں جسٹس منصور نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا
’میری رائے میں صدرِ مملکت کو سینیارٹی طے کرنے سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت کرنا لازم تھا۔‘
یہ بھی پڑھیے 5 ماہ کے تنازعات کے بعد جسٹس سرفراز ڈوگر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بن گئے
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی اور سینیارٹی کے معاملات پر اختلافات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں، اور عدالتی خودمختاری اور آئینی تقاضوں پر کھلی بحث جاری ہے۔