ذرا ٹھہریے انقلاب ڈاونلوڈ ہو رہا ہے

پیر 8 مئی 2023
author image

اسامہ خواجہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اگست 2014 ، کی غالباً 16 تاریخ تھی، انقلاب مارچ اپنی منزل کے قریب ترین نشان پر پہنچ چکا تھا۔ قائد انقلاب طاہر القادری آرام فرمانے کے بعد سٹیج پر چڑھے تو سماء ٹی وی کے اینکر ندیم ملک مائیک لیے سوالات کے ساتھ موجود تھے۔

قائد انقلاب نے پہلےتوکرسی پر چڑھ کر دونوں ہاتھ بوم بوم سٹائل میں بلند کر تےہوئے وکٹری کا نشان بنایا اور ساتھ ہی قوم کو ایڈوانس مبارک بادبھی دے ڈالی۔ پھر کرسی پر کھڑے کھڑے ہی فرنٹ فٹ پر آکر سوالوں کے جواب دینے لگے۔ اینکرنے جب سوال کیا کہ مان لیتے ہیں حکومت گھر جا چکی اور انقلاب آگیا ، بتائیں اگلا پروگرام کیا ہو گا ۔ اسکرپٹ میں جواب ہوتا تو حضرت علامہ کچھ ارشاد بھی فرماتے لیکن ایسا تو کچھ بتلایا ہی نہیں گیا تھا سو ٹال مٹول سے گزارا چلایا گیا۔

اکتوبر کی 21 تاریخ کو بالآخر عوامی تحریک نے دھرنا ختم کیا اورقائد تحریک اپنے انقلاب سمیت واپس لوٹ گئے۔ سال 2014 ختم ہوا تو اس سے قبل عمران خان کو بھی اپنا دھرنا ختم کرنا پڑا مگر انہوں نے ہار نہیں مانی۔ اپنی اکلوتی تقریر کے سہارے کامیاب جلسوں کی سیریز جاری رکھی، پانامہ کے صدقے وزیراعظم تبدیل کرا دیا مگر تقریر نہیں بدلی۔ اگست 2018 میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو قوم کو اُمید تھی کہ اب عملی اقدامات سے حالات بدلیں گے ۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق ہر مسئلے پر وہی پرانی تقریر کی گئی۔

معاشی مشکلات آئیں، تقریر کی۔ دوستوں سے تعلقات میں دراڑ آئی ، تقریر کی۔ کشمیر کی باری آئی تقریر کی، کرونا آیا، تقریر کی۔ کون سا مسئلہ تھا جسے حل کرنے کیلئے تقریر نہیں کی گئی مگر حالات بدلے نہ فطرت۔ تبدیلی کا اکلوتا وعدہ پورا ہوا، وہ بھی ایسے کہ اوپر کے دام بڑھ گئے۔ معاملات تقریر اور حالات اسی نہج پر بندھے رہتے تو قابل برداشت تھا لیکن شخصیات اور مقامات مقدسہ کا اس قدر بے دریغ استعمال کیا گیا کہ خدا کی پناہ۔

یوں لگتا ہے کہ جیسے ان تمام نوزائیدہ کانوں کا بندوبست کیا گیا تھا جن کی نوآموز سماعتوں نے آزادی و انقلاب کے نعرے پہلی بار سنے تھے۔ کپتان کے 3 برس 8 مہینوں میں کوئی دن ایسا نہ گیا جب مایوسی میں کمی ہوئی ہو۔ فیصلہ سازوں نے کمال ہوشیاری سے ہر اس مقدس نام کو نشانہ بنایا جو اس مردہ معاشرے میں روشنی کی کوئی کرن بکھیر سکتا تھا۔

پہلے تبدیلی اور انقلاب کا تماشہ لوگ دیکھ چکے تھے، اس کے بعد صادق اور امین کا لقب دیا گیا۔ ان القابات کے ساتھ اِس لاڈلے نے اقتدار میں آکر ریاست مدینہ کا استعمال شروع کر دیا۔ چند اصطلاحات کے اضافے کے بعداسی پرانی، باسی تقریر کے سہارے قائد ثانی اپنے اقتدار کا ایک دور مکمل کر چکے ہیں۔

آگے بڑھنے سے قبل ضروری ہے کہ پونے 4 برس کی کارکردگی جانچ کر اگلے معاملات پر بات کی جائے۔ حکومتی کارکردگی کا اندازہ معیشت، صحت، تعلیم ، داخلی امن و امان اور خارجی تعلقات کی صورتحال کو دیکھ کر باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔

معیشت کی بات کریں تو ایک مدت سے طے شدہ وزیر خزانہ اسد عمر اپنی معاشی ٹیم کے ہمراہ چند مہینوں(اپریل 2019) کے مہمان ثابت ہوئے۔ اور پھر خزانے کی کنجی آئی ایم ایف کے ہاتھ دے دی گئی۔ مقامی صنعت اور پیداوار کی ترقی کا یہ عالم تھا کہ ملک میں غیر پیداواری معیشت نے سب سے زیادہ ترقی کی۔

زیادہ تر حکومتی فنانسرز کا تعلق رئیل اسٹیٹ، کنسٹرکشن کے شعبے سے تھا اس لیے انہیں سب سے زیادہ سبسڈیز ملیں ۔ اس سارے عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ کُل قومی خزانے کا بڑا حصہ آج زمینوں پر سرمایہ کاری کی صورت میں غیر پیداواری عمل میں صَرف ہورہا ہے۔ زرعی زمینوں پرفصلوں کی بجائے آج ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے بورڈ لہلہا رہے ہیں اور سیٹھ کی حرص ہے کہ کسی صورت کم ہونے کا نام نہیں لیتی۔

معیشت کی تباہی کے بعد دوسرا شعبہ صحت کا تھا جس میں صحت انصاف کارڈ کا انقلابی پروگرام شروع کیا گیا۔غریبوں کے ہاتھ میں گتے کے کارڈ کے علاوہ بھی اس پروگرام میں بہت کچھ نیا تھا۔ پرائیویٹ ہسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی۔

فیصلہ ساز اپنی دیہاڑیاں اور منتھلیاں لگا کر الگ کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ جبکہ تنگ دست اور سفید پوش تبدیلی کو تباہی اور انقلاب کو عذاب سے تشبیہ دے کر کوس رہے ہیں۔ کپتان اگلی باری کا مطالبہ لے کر دوبارہ میدان میں ہے۔ اب کی بار غداری کی سند اس کے ہاتھ ، جبکہ شاہ محمود اس کے پہلو میں موجود ہے۔ گزشتہ برسوں میں عوامی مسائل پر رنجیدہ دل اقتدار کی کنجی سنبھالے مسند اقتدار پر حواس باختہ موجود ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس عوامی مسائل کے سوا ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔

کپتان اس بات پر خوش ہے کہ اگلی باری ملنے کا امکان پیدا ہو چلا ہے۔ خادم اس بات پر سعادت مند انداز میں ڈیسک بجا رہا ہے کہ اقتدار تحفے میں ملا ہے ۔ رہے عدالتی ہرکارے تو وہ فیصلہ سازوں کی شطرنج پر آپس میں دست و گریبان ہیں۔ باقی بچے عوام تو انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کس پہرے دار کا انتخاب کریں۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وی نیوز کے ساتھ بطور ایڈیٹر پلاننگ منسلک ہیں۔ اس سے قبل بھی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا کے اداروں کے لیے کام کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp