بلوچستان، جو بیک وقت قدرتی وسائل سے مالا مال اور شورش زدہ خطہ ہے، نہ صرف معاشی و سیاسی نظراندازی کا شکار ہے بلکہ یہاں کا صحافتی منظرنامہ بھی مسلسل زوال کا سامنا کر رہا ہے۔
جہاں ایک جانب رپورٹرز جان ہتھیلی پر رکھ کر فرائض انجام دے رہے ہیں، وہیں دوسری طرف انہیں معاشی استحکام، ادارہ جاتی تحفظ اور پیشہ ورانہ وقار کے بحران کا سامنا ہے۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی عرفان علی کی 15 سالہ صحافتی زندگی اس بحران کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ انہوں نے 2010 میں سندھی ٹی وی چینل ’آواز نیوز‘ سے بطور رپورٹر کیریئر کا آغاز کیا، لیکن صرف 3 سال بعد 2013 میں مالی مسائل کے باعث ادارے نے انہیں بیروزگار کر دیا۔ کئی برس تک بیروزگاری اور بغیر تنخواہ کام کرنے کے بعد، انہیں ’کے ٹی این نیوز‘ نے ایک اور موقع فراہم کیا، مگر 2021 میں کورونا کے دوران چینل نے کوئٹہ بیورو بند کردیا، اور وہ ایک بار پھر سڑک پر آگئے۔
عرفان علی بتاتے ہیں کہ وہ 2010 سے 2021 تک کے صرف 10 سالہ عرصے میں بار بار بیروزگار ہوئے اور مہینوں بغیر تنخواہ کے کام کیا۔ بالآخر انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنا نیوز پلیٹ فارم قائم کیا تاکہ وہ خبریں سامنے لاسکیں جنہیں مرکزی میڈیا نظر انداز کرتا ہے۔ ان کے بقول، ’تنخواہوں کی امید پر کام کرنے سے بہتر ہے کہ صحافی خود کا پلیٹ فارم شروع کریں، جہاں کم از کم عزتِ نفس محفوظ ہو۔‘
ادریس کی بے دخلی — صحافت سے دیارِ غیر تک کا سفر
اسی نوعیت کی داستان محمد ادریس کی بھی ہے، جنہوں نے بلوچستان میں صحافت کے میدان میں کئی خطرناک رپورٹنگ مشنز کیے، بم دھماکوں میں زخمی ہوئے، لیکن بدلے میں انہیں صرف معاشی عدم تحفظ اور ادارہ جاتی بےحسی ملی۔
ادریس نے بالآخر صحافت سے منہ موڑ کر جرمنی میں سکونت اختیار کر لی۔ وہ کہتے ہیں، ’جان بچا کر لاتے رہے بریکنگ نیوز، مگر ادارے معذرت خواہ تھے کہ ان کے پاس ہمیں رکھنے کی گنجائش نہیں۔‘
صحافت کا زوال — اعداد و شمار
یہ صرف چند صحافیوں کی کہانیاں نہیں، بلکہ پورے صحافتی نظام کا المیہ ہے۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی ’جنوبی ایشیائی پریس فریڈم رپورٹ‘ کے مطابق، مئی 2018 سے اپریل 2019 کے درمیان پاکستان میں تقریباً 2,000 صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ملازمتوں سے برطرف کیا گیا۔
بلوچستان میں تو صورتحال مزید ابتر ہے۔ سینکڑوں صحافی بغیر تنخواہ، بغیر وسائل اور شدید ذہنی دباؤ میں کام کر رہے ہیں۔ جو تنخواہ دار ہیں، وہ بروقت ادائیگی کے بحران کا شکار ہیں؛ جو بےروزگار ہو چکے ہیں، وہ متبادل روزگار کی تلاش میں بے چین ہیں۔
بیورو دفاتر کی بندش — خاموشی کی چادر تنی ہوئی ہے
بلوچستان میں تقریباً تمام بڑے چینلز نے اپنے بیورو دفاتر یا تو بند کر دیے ہیں یا سکیڑ دیے ہیں۔
بند کیے گئے بیوروز میں شامل ہیں:
- KTN نیوز
- کاوش اخبار
- ڈان نیوز بیورو کوئٹہ
- کیپیٹل ٹی وی
- پبلک نیوز
- 24 نیوز
- بول نیوز — جہاں صرف چند من پسند افراد کو رکھا گیا۔
بعض اداروں نے بیورو بند نہ کرنے کے باوجود وسائل اور تنخواہوں میں شدید کٹوتیاں کی ہیں، مثلاً دنیا نیوز، 92 نیوز، اے آر وائی اور جیو نیوز جیسے ادارے جہاں ادائیگیوں میں تاخیر معمول بن چکی ہے۔
ایک رپورٹر، ایک موبائل، ایک چینل — نیا صحافت ماڈل؟
صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بعض چینلز جیسے 24 نیوز اور سیون نیوز میں صرف ایک رپورٹر، بغیر دفتر، بغیر سازوسامان، محض موبائل فون کے ذریعے پورے ریجن کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ تنخواہیں بھی وقت پر نہیں ملتیں۔
ماہرین کی آراء — تشویش اور مطالبات
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کے مطابق میڈیا کی کمزور ہوتی معیشت کا سب سے بڑا بوجھ نچلے درجے کے صحافیوں پر پڑ رہا ہے، جو کم اجرت پر زیادہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ’بیورو دفاتر کا بند ہونا ہی نہیں، بلوچستان میں کام کرنے والے میڈیا ورکرز کو باقی صوبوں سے کہیں کم معاوضہ دیا جاتا ہے، جو ناانصافی ہے۔‘
سینئر صحافی سلیم شاہد کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک مسئلے کو سمجھا نہیں جائے گا، اس کی مؤثر رپورٹنگ ممکن نہیں، اور جب رپورٹنگ ہی نہ ہو، تو شعور اور آگہی کہاں سے آئے گی؟‘
صحافی اور سماج، دونوں کے لیے لمحہ فکریہ
بلوچستان جیسے حساس خطے میں صحافت کا زوال صرف صحافیوں کا مسئلہ نہیں، یہ ریاست، جمہوریت اور عوامی آگہی کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ جب آوازیں دبائی جائیں، یا تنخواہ کی آس میں خاموشی طاری ہو جائے، تو ظلم صرف رپورٹ نہیں ہوتا، وہ جڑیں پکڑ لیتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔