لگ بھگ سوا سال قبل جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ملک شدید معاشی بحران کا شکار تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے تھے، مہنگائی کی شرح بہت بلند ہو چکی تھی، اور پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی بازگشت تواتر سے سنائی دے رہی تھی۔
ایسے میں معیشت کی ذمہ داری لینا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، مگر ایک سال کی قلیل مدت میں موجودہ حکومت نے لڑکھڑاتی معیشت کو سنبھالا اور استحکام سے ہم کنار کیا۔
وہ ناقدین جو حکومتی صلاحیتوں پر سوالات اٹھا رہے تھے آج خاموش ہیں اور اب ترقی کی رفتار پر بحث کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے سب سے اہم قدم اس کی درست تشخیص ہے، معاشی امراض کی تشخیص اور ان کا بروقت و مؤثر علاج ہی کسی قوم کو بحران سے نکال سکتا ہے۔
یہی صلاحیت موجودہ حکومت نے دکھائی۔ دنیا بھر میں معیشتوں کے ارتقا کو دیکھیں تو پہلے زرعی دور تھا، پھر صنعتی انقلاب آیا، اور اب دنیا ٹیکنالوجیکل معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے۔
یورپ، امریکہ اور چین جیسے ممالک نے صنعتی ترقی کے ذریعے اپنی معیشتوں کو طاقتور بنایا۔ چین اگرچہ بعد میں اس میدان میں داخل ہوا، مگر اس نے برق رفتاری سے ترقی کر کے دنیا کو حیران کر دیا بدقسمتی سے پاکستان اس دوڑ میں پیچھے رہ گیا، اور اس کی بنیادی وجہ سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت (2018-2013) نے سی پیک جیسے میگا پراجیکٹس کے ذریعے ملکی معیشت کی درست سمت کا تعین کرتے ہوئے صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی، جس کا پہلا مرحلہ(2018-2013) بنیادی ڈھانچے اور توانائی بالخصوص بجلی کی پیداوار پر مبنی تھا۔
دوسرا مرحلہ (2023-2018) میں نو خصوصی اقتصادی زونز قائم کر کے بڑے پیمانے پر صنعت کاری کا آغاز کرنا تھا 2018 میں سیاسی تبدیلی کے باعث پی ٹی آئی کی حکومت بنائی گئی۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سی پیک کو عملاً معطل کر کے صنعتی ترقی کا سفر روک دیا، جس سے ملک کی پیداواری صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی اور قرضوں پر انحصار میں اضافہ ہوا۔
آج دنیا ٹیکنالوجی کی بنیاد پر نئی معیشتیں تشکیل دے رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف زرعی یا صنعتی معیشت پر انحصار کرنے کے بجائے ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت کی جانب قدم بڑھائے اس تناظر میں موجودہ حکومت کا ’اُڑان پاکستان‘ پروگرام نہایت اہمیت کا حامل ہے جو کہ زرعی اور صنعتی معیشت میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اکانومی کی جانب پرواز ہے۔
’اُڑان پاکستان‘ ایک جامع اور طویل المدتی فریم ورک ہے جو 2035 تک پاکستان کو ایک ٹریلین ڈالر اور 2047 یعنی پاکستان کے قیام کے 100 سال مکمل ہونے پر 3 ٹریلین ڈالر معیشت بنانے کے ویژن کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے اور یہ 5 بنیادی ستونوں یا 5Es پر مشتمل ہے:
-
(Exports) برآمدات:
پاکستان کی معیشت کو ایکسپورٹ پر مبنی بنانا اس کا پہلا ہدف ہے، حکومت کا ارادہ ہے کہ زراعت، آئی ٹی، معدنیات، بلیو اکانومی اور تخلیقی صنعتوں کے ذریعے برآمدات کو 5 سال میں 60 ارب ڈالر تک پہنچایا جائے۔
-
(E – Pakistan) ای-پاکستان:
ڈیجیٹل معیشت کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فری لانسنگ انڈسٹری کو 5 ارب ڈالر تک لے جانے، ہر سال 200,000 آئی ٹی گریجویٹس پیدا کرنے اور اسٹارٹ اپ کلچر کو فروغ دینے کے لیے پُرعزم ہے۔
-
(Environment) ماحولیات:
ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے پائیدار طریقوں کو اپنانا ضروری ہے تاکہ نئے چیلنچز کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر ترقی کا سفر تسلسل سے جاری رکھ سکیں۔
-
(Energy) توانائی :
سستی، مؤثر اور ماحول دوست توانائی کے منصوبے صنعت اور عوام دونوں کے لیے ناگزیر ہیں۔
-
(Equity) طبقاتی مساوات:
حکومت اس امر کو یقینی بنا رہی ہے کہ ترقی کے ثمرات معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچیں تاکہ معاشی بہتری کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف کا قیام بھی ممکن ہو۔
ان 5 ستونوں کے ساتھ ’اُڑان پاکستان‘ کے تحت انوویشن ہب کا قیام بھی ایک انقلابی قدم ہے یہ ہب جدید خیالات، تحقیق اور تخلیق کو فروغ دیتا ہے۔
پہلے سیزن میں 147 ملین روپے کی گرانٹس 39 منصوبوں کو فراہم کی گئیں، جنہوں نے زراعت، صحت، تعلیم اور ٹیکنالوجی میں جدید منصوبے پیش کیے۔
اب انوویشن ہب کے دوسرے سیزن کا آغاز ہو چکا ہے جس کے لیے 10 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ یہ فنڈز خصوصی طور پر تخلیقی معیشت کو بڑھانے کے لیے استعمال ہوں گے، جس میں موسیقی، فلم، ڈیزائن، گیمنگ، اور ثقافت جیسے شعبے بھی شامل کئے گئے ہیں۔
یہ شعبے نہ صرف ملک کے مثبت تشخص کو فروغ دیتے ہیں بلکہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
’اُڑان پاکستان‘ کا ہدف صرف معاشی ترقی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی ہے، یہ پروگرام صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک عملی فریم ورک دکھائی دیتا ہے، جو طویل المدتی اہداف کے ساتھ مربوط منصوبہ بندی، سرمایہ کاری اور عمل درآمد کو یقینی بناتا ہے۔
اگر اس منصوبے پر تسلسل کے ساتھ کام کیا گیا، سیاسی استحکام برقرار رکھا گیا، اور ہر شعبے میں شفافیت و میرٹ کو اپنایا گیا تو یقیناً پاکستان نہ صرف اپنے معاشی اہداف حاصل کرے گا بلکہ عالمی سطح پر ایک باوقار مقام بھی حاصل کرے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔