حماس نے 10 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے، جو غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے جاری کوششوں کا حصہ ہے، تاہم فلسطینی مزاحمتی تنظیم کا کہنا ہے کہ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات سخت گیر اسرائیلی رویے کے باعث ’انتہائی مشکل‘ ثابت ہو رہے ہیں۔
حماس کی جانب سے یہ اعلان بدھ کے روز اس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی حملوں میں غزہ میں کم از کم 74 افراد شہید ہوگئے، ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر امید ظاہر کی ہے کہ غزہ میں جلد ہی جنگ بندی ممکن ہو سکے گی۔
#BREAKING Hamas says it agrees to release 10 Israeli hostages as part of ‘flexibility’ to reach Gaza ceasefire pic.twitter.com/5d7MHTZMNz
— Anadolu English (@anadoluagency) July 9, 2025
حماس کے مطابق قطر اور امریکا کی ثالثی میں جاری مذاکرات میں کئی اہم نکات پر اختلافات موجود ہیں، جن میں فوری انسانی امداد کی فراہمی، اسرائیلی افواج کی غزہ سے واپسی اور مستقل جنگ بندی کی واضح ضمانتیں شامل ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کے عہدیدار طاہر النوعنو کا کہنا ہے کہ تنظیم نے حالیہ جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لیا ہے اور اپنے عوام کو تحفظ دینے، نسل کشی کے جرم کو روکنے، اور امداد کی باعزت اور آزادانہ فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حماس غزہ میں جنگ بندی کے لیے کس بات کی ضمانت مانگ رہی ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کے ابتدائی مرحلے کے تحت اسرائیلی فوج کو کن علاقوں سے پیچھے ہٹنا ہے، اس کا تعین اس طرح کیا جانا چاہیے کہ فلسطینی عوام کی زندگی متاثر نہ ہو اور مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے لیے راہ ہموار ہو۔
دوسری جانب اسی ہفتے دو بار اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد واشنگٹن میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے امکانات بہت اچھے ہیں، تاہم ان کے تازہ بیان میں کچھ احتیاط کا عنصر نمایاں تھا۔
’مجھے لگتا ہے اس ہفتے یا اگلے ہفتے تک ہمیں موقع مل سکتا ہے، یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ جنگ اور غزہ جیسے مسائل میں یقین کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن امکانات بہت اچھے ہیں کہ کسی نہ کسی قسم کا معاہدہ جلد طے پا جائے۔‘