گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ ایک مریض کی پمز اسپتال میں موت واقع ہو چکی تھی جس کے بعد اسے شفا اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں مردہ شخص کو داخل کر لیا گیا اور 7 دنوں تک روزانہ کی بنیاد پر ایک لاکھ روپے تک وصول کیے جاتے رہے۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا ایسا ہوا ہے کہ شفا ہسپتال ایک مردہ شخص سے لاکھوں روپے وصول کرتے رہا؟ اصل معاملہ ہے کیا؟
یہ بھی پڑھیے اسپتال میں مبینہ غفلت سے 6 سالہ زونیشہ کی موت، والدین انصاف کے خواہاں
سینیئر تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کے مطابق قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں معاملے کا جائزہ لینے کے لیے شفا اسپتال کے نمائندوں کو طلب کیا گیا تھا، رکن اسمبلی زہرا فاطمہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کے گھریلو ملازم کے والد کو دل کا عارضہ لاحق ہوا جس کے علاج کے لیے وہ اسپتال لے گئے تھے۔ اسپتال والوں نے لواحقین کو بتایا کہ آپ کے مریض کا دل چل رہا ہے لیکن اس کا دماغ مردہ ہو چکا ہے۔ اس موقع پر کسی نے مشورہ دیا کہ اپ مریض کو شفا اسپتال منتقل کر دیں، ہو سکتا ہے کہ بچ جائے ، نتیجتاً انہوں نے ’مریض‘ کو شفا اسپتال منتقل کر دیا۔
زہرا فاطمہ کے مطابق جس وقت اس شخص کو شفا اسپتال لایا گیا تو اسپتال انتظامیہ نے کہا کہ ایسا مریض، جس کا دماغ مردہ ہوچکا ہو اور دل چل رہا ہو، اس کو وینٹی لیٹر پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اسپتال کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ اس شخص کا دماغ مردہ ہو چکا ہے، اس لیے اس کو وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے میو اسپتال میں انجیکشن کے ری ایکشن کے باعث ہلاکتوں کا معاملہ، انسانی غلطی کا انکشاف
زہرا فاطمہ کے مطابق 7 دنوں کے بعد جب میں شفا اسپتال آئی تو میں نے اپنے ملازم سے کہا کہ اپنے مریض کو وینٹی لیٹر سے ہٹوا دیں، جس کے بعد اس مریض کے موت ڈکلیئر کر دی گئی۔
سینیئر صحافی عمر چیمہ کے مطابق اسی کمیٹی اجلاس میں شفا اسپتال کی انتظامیہ سے پوچھا گیا کہ کیا شفا اسپتال کو ٹیکس چھوٹ حاصل ہے جس پر بتایا گیا کہ شفا اسپتال نے گزشتہ مالی سال میں 3 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا ہے۔