اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی بھی ہوسکتی ہے تاہم اس کے لیے حماس کو کچھ شرائط پر عمل کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کی ماہر فرانچیسکا البانیز کو امریکی پابندیوں کا سامنا، اسرائیلی مظالم کی نشاندہی ’جرم‘ ٹھہری
العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے ساتھ 2 ہفتوں میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ ہوسکتا ہے تاہم یہ ایک دن میں ممکن نہیں۔
وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دورہ واشنگٹن کے دوران ایک اعلیٰ اسرائیلی عہدیدار نے جمعرات کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اگر دونوں فریق 60 دن کی جنگ بندی کے مجوزہ منصوبے پر متفق ہو گئے تو اسرائیل ایک مستقل جنگ بندی کی تجویز پیش کرے گا جس کی شرط یہ ہو گی کہ حماس اپنے ہتھیار ڈال دے۔
عہدیدار نے کہا کہ لیکن اگر حماس نے اس سے انکار کیا تو اسرائیل اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھے گا۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی تازہ ترین گفتگو میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ غزہ میں معاہدے کا موقع موجود ہے اور یہ یا تو اسی ہفتے یا اگلے ہفتے کے دوران رو بہ عمل ہوجائے گا۔
صدر ٹرمپ نے ان خبروں پر بھی تبصرہ کیا جن میں کہا گیا تھا کہ امریکی، اسرائیلی اور قطری حکام کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے ایک خفیہ ملاقات ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل اہمیت معاہدے کے حصول کی ہے اور وہ معاہدہ قریب ہے۔
مزید پڑھیے: اسرائیلی محاصرہ ختم نہ ہوا تو طبی مراکز جلد قبرستانوں میں تبدیل ہوجائیں گے، اسپتالوں کی دہائی
اسی تناظر میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ جنگ بندی کے معاہدے کے امکانات روشن ہیں اور اب یہ معاہدہ قریب تر ہو چکا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہ مجوزہ معاہدہ 2 ماہ کے لیے ہو گا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حماس ہی غزہ کے عوام کو بھوکا مارنے کی ذمے دار ہے اور اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ اپنے دفاع کے تحت کر رہا ہے۔
دریں اثنا امریکی ایلچی کا کہنا ہے کہ متوقع معاہدے میں 60 دن کی جنگ بندی شامل ہو گی اور اس کے علاوہ 10 زندہ یرغمالیوں کی رہائی اور 9 ہلاک شدگان کی باقیات کی واپسی بھی اس میں شامل ہو گی۔
ترمب: التوصل لاتفاق لوقف إطلاق النار في غزة بات قريبا#أخبار_الصباح #قناة_العربية pic.twitter.com/ClkrY9fMb1
— العربية (@AlArabiya) July 10, 2025
یہ تنازع اکتوبر 2023 میں اس وقت شروع ہوا جب حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا جس میں اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اندازہ ہے کہ تقریباً 50 افراد اب بھی غزہ میں قید ہیں۔ گمان کیا جا رہا ہے کہ ان 50 میں سے 20 اب بھی زندہ ہیں۔
مزید پڑھیں: کھانا اور ادویات لینے آئے بیمار بچوں و خواتین پر اسرائیلی فوج کا حملہ، 15 افراد شہید
دوسری جانب اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک اسرائیل کی جانب سے غزہ پر کی گئی جنگی کارروائیوں میں 57 ہزار سے زائد شہید ہوچکے ہیں۔ علاوہ ازیں غزہ کی اکثریتی آبادی بے گھر ہو چکی ہے اور 5 لاکھ افراد قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اسرائیلی فوج اسپتالوں کا محاصرہ کیے ہے اور غذائی امداد ملنے کے مراکز پر بھی اس کے حملے جاری ہیں جن کے سبب ایک طرف بیمار بغیر علاج مر رہے ہیں جبکہ بھوک سے بدحال لوگ کھانے کی جگہ اسرائیلی فوج کی چلائی جانے والی گولیاں و گولہ بارود کھا کر جان گنوا رہے ہیں۔