فلسطینیوں کے حامی معروف امریکی طالب علم اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن محمود خلیل نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف 20 ملین ڈالر کے ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا ہے، جس میں ان پر غیر قانونی حراست اور ان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
خلیل، جو 3 ماہ سے زائد عرصے تک جیل میں قید رہے، نے الزام لگایا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے نہ صرف انہیں غیر قانونی طور پر قید کیا بلکہ ان کے خلاف جان بوجھ کر کارروائی کی اور ان کا نام بدنام کیا۔
جمعرات کو دائر کی جانے والی قانونی درخواست میں امریکی محکمہ داخلی سلامتی، امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE)، اور محکمہ خارجہ کو فریق بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے فلسطینیوں کی حمایت جرم قرار، امریکا نے غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیے
محمود خلیل نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ وہ اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ وہ جوابدہ نہیں ہیں۔ اگر ان پر کسی قسم کی جوابدہی کا دباؤ نہ ڈالا جائے تو یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔
محمود خلیل کا کہنا ہے کہ ان کا دعویٰ یہ پیغام دینے کے لیے ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کسی بھی قیمت پر کارکنوں کو خاموش نہیں کر سکتی۔واضح رہے کہ محمود خلیل کا یہ دعویٰ ایک بڑے مقدمے کی ابتدائی کارروائی ہو سکتا ہے جو فیڈرل ٹارٹ کلیمز ایکٹ کے تحت دائر کیا جائے گا۔
محمود خلیل نے اپنے دعویٰ میں کہا کہ وہ جو بھی رقم حاصل کریں گے وہ دیگر کارکنوں کی مدد کے لیے استعمال کریں گے جنہیں ٹرمپ انتظامیہ نے دبایا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرے اور ان سے معذرت کرے تو وہ اسے قبول کریں گے۔
محمود خلیل کون ہیں؟
محمود خلیل، جو دمشق، شام میں فلسطینی والدین کے ہاں پیدا ہوئے، 2023 میں غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے آغاز کے بعد سے امریکا میں فلسطینیوں کی حامی تحریک کا اہم چہرہ بن گئے تھے۔ ان کی سرگرمیوں نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی۔ وہ کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطینی حقوق کے لیے مظاہروں کے ترجمان کے طور پر جانے گئے۔
ٹرمپ نے اپنے انتخابی مہم میں امریکا میں جنگ مخالف مظاہروں پر کریک ڈاؤن کرنے اور فلسطینی حمایت کرنے والوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔ جنوری 2024 میں جب ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا، تو انہوں نے ’غیر قانونی‘ سرگرمیوں میں ملوث غیر ملکیوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کے لیے کئی ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے تھے۔
محمود خلیل کو 8 مارچ 2024 کو نیو یارک میں ان کے یونیورسٹی اپارٹمنٹ سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں بعد میں مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا گیا۔ ان کے خلاف کوئی جرم نہیں عائد کیا گیا تھا، تاہم ان کی گرفتاری کو فلسطینیوں کی حمایت میں کیے جانے والے مظاہروں میں حصہ لینے پر جواز بنایا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:فلسطین کے حامی غیرملکیوں کو امریکا بدر کرنے فیصلہ
محمود خلیل کے وکلاء نے ان کی گرفتاری اور حراست کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ایک ہابیس کارپس درخواست دائر کی تھی، جس کے تحت انہیں فوری طور پر رہائی دی گئی تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق محمود خلیل کے اس دعوے نے امریکا میں اظہار رائے کی آزادی اور سیاسی سرگرمیوں پر لگنے والی پابندیوں کے خلاف ایک نیا سوال اٹھا دیا ہے، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان کی قانونی جنگ امریکا میں مظاہروں اور کارکنوں کے حقوق کے لیے کیا تبدیلیاں لاتی ہے۔