فوجی عدالتوں سے ملنے والی سزائیں ہائیکورٹس میں چیلنج کی جاسکتی ہیں، پشاورہائیکورٹ

اتوار 13 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پشاور ہائیکورٹ نے ہفتے کے روز فیصلہ سنایا ہے کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے افراد متعلقہ ہائیکورٹس میں رِٹ پٹیشن دائر کرنے کے مجاز ہیں، اور اس حوالے سے وفاقی حکومت کے اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل: جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان کا اختلافی نوٹ جاری

میڈیا رپورٹ کے مطابق جسٹس وقار احمد اور جسٹس صادق علی میمن پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں کو ہائیکورٹس میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

یہ فیصلہ مردان کے رہائشی عدنان اور دیگر کی جانب سے دائر کردہ رِٹ پٹیشن پر سنایا گیا، جن کا مؤقف تھا کہ ان کا 9 مئی 2023 کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین کی گرفتاری کے بعد ہونے والے مظاہروں میں عدم شمولیت کے باوجود ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، اور بعد ازاں انہیں فوجی عدالت کے سپرد کر دیا گیا، جبکہ دیگر شریک ملزمان کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوا۔

دورانِ سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل نے پٹیشن کے قابلِ سماعت ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ درخواستگزاروں کے لیے ایک متبادل اپیل کا فورم موجود تھا، جس سے وہ مقررہ وقت میں رجوع نہ کر سکے، لہٰذا یہ رِٹ پٹیشن مقررہ مدت گزرنے کے باعث ناقابلِ سماعت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ملٹری کورٹس سے رہائی پانے والے مجرمان کی رحم کی درخواستیں سامنے آگئیں

اس پر درخواستگزاروں کے وکیل بیرسٹر امیراﷲ چمکنی نے مؤقف اپنایا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے افراد ہائیکورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں، جیسا کہ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر حکم میں تسلیم کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے تاحال آرمی ایکٹ میں ایسی کوئی ترمیم نہیں کی جس سے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں باقاعدہ اپیل کا فورم قائم کیا جائے، اس لیے اپیل کی مدت کا آغاز بھی انہی ترامیم کے بعد ہی ممکن ہوگا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ درخواستگزاروں کو ان کے خلاف الزامات اور سزا کی وجوہات سے مکمل لاعلم رکھا گیا، جس کی وجہ سے وہ بروقت اپیل دائر نہیں کر سکے۔ جب انہیں آگاہ کیا گیا تو تب تک اپیل کا وقت گزر چکا تھا۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ وہ آئینی دائرہ اختیار استعمال کر سکتی ہے اور اپنی آئینی ذمہ داریوں سے آنکھ نہیں چرا سکتی۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ جب متبادل فورم مؤثر نہ رہے یا دستیاب ہی نہ ہو، تو رِٹ پٹیشن دائر کرنا ایک جائز قانونی راستہ ہے۔

عدالت نے بریگیڈیئر علی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے عدالتی نگرانی کا اصول پہلے سے قائم ہے۔ سپریم کورٹ کے اُس بینچ نے بھی، جس نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو برقرار رکھا تھا، اپنے مختصر حکم میں واضح کیا تھا کہ سزایافتگان ہائیکورٹس سے رجوع کر سکتے ہیں، اور یہ ان کا آئینی حق ہے۔

عدالت نے اس کیس سے متعلق ایک اور درخواست کو بھی نمٹا دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ درخواستگزاروں کو ان کے مقدمے سے متعلق کوئی دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، جن میں چارج شیٹ اور آرمی چیف کی جانب سے دیے گئے فیصلوں کی نقول شامل تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر آج کی سماعت کا دلچسپ احوال

عدالت نے قرار دیا کہ دفاع کے حق میں درخواست گزاروں کو ان تمام دستاویزات تک رسائی حاصل ہونی چاہیے اور وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ تمام متعلقہ مواد کی مصدقہ نقول فراہم کرے۔

عدالت نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ آرمی چیف نے فوجی عدالتوں کا ریکارڈ ملزمان سے چھپانے کی کوئی ہدایت جاری کی تھی۔ تاہم عدالت نے تسلیم کیا کہ آرمی چیف کی جانب سے جاری کیے گئے فیصلے عام نہیں کیے جا سکتے، البتہ باقی ریکارڈ درخواست گزاروں کو مہیا کیا جانا چاہیے۔

یہ فیصلہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل اور ان کے آئینی حقوق سے متعلق جاری قانونی بحث میں ایک اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp