ماؤس ٹریپ ایک اصطلاح تو ہے ہی مگر آج ہم دی ماؤس ٹریپ (The Mousetrap)کی بات کر رہےہیں۔ ایک ایسا اسٹیج ڈرامہ جو پون صدی سے لندن کے ایک مشہور تھیٹر میں پرفارم ہو رہا ہے، دنیا بھر سے لوگ اسے دیکھنے جاتے ہیں، فنکاروں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس میں حصہ لیں۔ یوں یہ ایک کلاسیک بن چکا ہے۔ یہ کالم لکھنے کی جو وجہ بنی ہے، اس کا تذکرہ آخر میں آئے گا مگر پہلے ماؤس ٹریپ کے بارے میں بنیادی معلومات پر نظر ڈال لیتے ہیں۔
اسکی مصنفہ انگریزی زبان کی مشہور جاسوسی ناول نگار آگاتھا کرسٹی ہیں۔ آگاتھا کرسٹی نے یہ کہانی ایک ریڈیو ڈرامے کے طور پر ملکہ برطانیہ کی سالگرہ کے تحفے کی حیثیت میں لکھی تھی۔ بعد میں اسے ڈویلپ کرکے اسٹیج پر پیش کیا گیا۔ تب اس مقبول ترین مسٹری ناول نگار کا خیال تھا کہ یہ بمشکل 8 ماہ چلے گا۔ اگاتھا کرسٹی نے شائد کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہ ڈرامہ پون صدی تک چل جائے گا اور ابھی معلوم نہیں کتنا عرصہ مزید چلے۔
دی ماؤس ٹریپ لندن کے مشہور تھیٹر مرکز “ویسٹ اینڈ” میں چل رہا ہے۔ پہلا شو 1952 میں میں پیش کیا گیا تھا، اور یہ ڈرامہ 73 سال سے مسلسل چل رہا ہے (سوائے COVID-19 کے دوران عارضی بندش کے)۔ اب تک 28 ہزار سے زائد مرتبہ اسٹیج پرفارمنسز ہوچکی ہیں جو عالمی ریکارڈ ہے۔
یاد رہے کہ ویسٹ اینڈ(West End) سینٹرل لندن میں واقع تھیٹر مرکز ہے جہاں لندن کے سب سے بڑے اور تاریخی تھیٹرز موجود ہیں۔ نیویارک کے شہرہ آفاق براڈوے تھیٹرز کی طرح لندن کے ویسٹ اینڈ تھیٹرز بھی مشہور ہیں۔ ویسٹ اینڈ یورپ کا سب سے نمایاں تھیٹر ڈسٹرکٹ مانا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ ویسٹ اینڈ میں آ کر مشہور ڈرامے، میوزیکل، اور پرفارمنسز دیکھتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کسی بھی اداکار یا ڈائریکٹر کے لیے ویسٹ اینڈ کا تھیٹر کرنا بہترین اعزاز سمجھا جاتا ہے۔
ماؤس ٹریپ کا پہلا پریمیر 25 نومبر 1952 کو ایمبیسڈر تھیٹر میں ہوا۔ 22 سال تک وہاں یہ ڈرامہ چلتا رہا ۔ اس کے بعد سے یہ سینٹ مارٹن تھیٹر میں منتقل کیا گیا جو ایمبیسڈر تھیٹر کے ساتھ واقع ہے۔ پچھلے 50 برس سے دی ماؤس ٹریپ سینٹ مارٹن تھیٹر میں ہی پرفارم ہورہا۔
میں ماؤس ٹریپ کے بارے میں سرچ کر رہا تھا تو دلچسپ بات یہ پتا چلی کہ یہ ہفتے میں 6 دن مسلسل پرفارم کیا جاتا ہے۔ پیر کو چھٹی ہوتی ہے جبکہ منگل سے اتوار تک ہر روز شام (ساڑھے 7 بجے) اس کے شو ہوتے ہیں۔ بدھ اور ہفتہ کو ڈبل شو، دوسرا شو دوپہر کو ہوتا ہے۔ کئی نمایاں فنکار مسلسل یعنی ہر ہفتے کئی شو کرتے ہیں۔ ڈیوڈ ریون نامی اداکار نے اس ڈرامےمیں “میجر میٹکالف” کا کردار 4 ہزار 575 بار ادا کیا۔ لگ بھگ 12 سال روزانہ بغیر وقفے کے، انہیں اس پر گنیز ورلڈ ریکارڈ ملا۔
اس ڈرامے کے حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آج تک کسی اخبار، ویب سائٹ یا کسی ریویو لکھنے والے نے اس ڈرامے کے اختتام کے بارے میں نہیں بتایا۔ دراصل یہ ایک مرڈر مسٹری ہے اور اس میں اصل سسپنس ہی یہی ہے کہ اصل قاتل کون ہے؟ ہر روز ڈرامہ ٹیم کی جانب سے ناظرین کو باقاعدہ یہ درخواست کی جاتی ہے کہ پلیز اس ڈرامے کا ڈرامائی انجام کسی کو نہ بتائیں تاکہ سسپنس قائم رہے۔ اب یہ ایک کرشمہ ہی ہے کہ ہر کسی نے اس کا احترام کیا اور کہیں پر کوئی سپائلر نہیں آیا۔ حتیٰ کہ برطانوی ٹیبلائیڈ اخبار جو اپنی سنسنی خیز اور عامیانہ کوریج کی شہرت رکھتے ہیں، انہوں نے بھی تھیٹر کی اس روایت کا احترام کیا۔
اگاتھا کرسٹی نے جب یہ ڈرامہ تھیٹر کے لیے دیا تو ایک شرط رکھی کہ جب تک یہ ویسٹ اینڈ تھیٹرز میں چلتا رہے گا، اس پر فلم نہیں بن سکے گی۔ چونکہ یہ مسلسل چلتا آ رہا ہے، اس لیے اس پر فلم بھی نہیں بنی۔ ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ آج تک اس ڈرامے میں استعمال ہونے والا اسٹیج اسی ڈیزائن پر مبنی ہے جو 1952 میں بنایا گیا تھا۔ وہی ماحول، وہی لباس وغیرہ، دیکھنے والوں کو لگتا ہے جیسے وہ اسی فضا میں پھر سے چلے گئے۔ یوں جیسے کوئی تاریخی ورثہ زندہ ہو۔
مجھے تو کبھی ویسٹ اینڈ لندن جانے کا موقع نہیں ملا، مگر میرے بعض دوست وہاں گئے اور انہوں نے کوشش کی کہ وہ ماؤس ٹریپ تھیٹر میں جا کر دیکھیں تو پتا چلا کہ اس کی ٹکٹ کئی کئی ماہ ایڈوانس بک ہے۔
اس ڈرامے کی نان سپائلر کہانی کے مطابق برطانیہ کے ایک مضافاتی علاقے کے ایک نئے گیسٹ ہاؤس میں کچھ اجنبی مسافر باہر چلنے والے برف کے طوفان کی وجہ سے پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اچانک انہیں پتا چلتا ہے کہ ان کے درمیان ایک قاتل ہے اور وہ خود بھی اس کا اگلا نشانہ بن سکتے ہیں۔
خوف اور تحیر کی اس فضا میں سارجنٹ ٹروٹر نامی ایک تفتیشی پولیس افسر بھی وہاں آ دھمکتا ہے۔ اسے شک ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں سے کسی ایک کا لندن مرڈر کیس سے تعلق ہے۔ اب آگے پورا ڈرامہ اس کی تفتیش کے گرد گھومتاہے۔ وہاں موجود ہر کردار کی اپنی ایک دلچسپ کہانی اور ماضی ہے، پولیس افسر اسے کھنگال کر اصل قاتل تک کیسے پہنچتا ہے، یہ تو آپ اگر خوش نصیب ہوئے تو ماؤس ٹریپ ڈرامہ کو تھیٹر میں دیکھ کر ہی جان پائیں گے۔
بتایا جاتا ہے کہ کچھ پروڈکشنز میں اداکار (خصوصاً ڈیٹیکٹو ٹروٹر) روزانہ الگ انداز میں اداکاری کرتے ہیں تاکہ مختلف کردار مشتبہ لگیں اور تماشائی کا شک ہر دن کسی اور پر جائے۔ ناقدین کے مطابق یہ ڈرامہ عوامی دلچسپی، رازداری، ذہانت بھرا پلاٹ، اور اسٹیج پر روایت کی خوبصورتی کا ایک نایاب اور حسین امتزاج ہے۔
اگاتھا کرسٹی نے ہر کردار کو اس قدر گہرائی دی ہے کہ کوئی بھی محض ایک سائیڈ رول نہیں لگتا۔ ڈرامے کا انجام اتنا چونکا دینے والا اور منفرد ہے کہ لوگ آج بھی اسے جاننے کے بعد دوسری بار دیکھنے آتے ہیں تاکہ اشارے تلاش کریں۔ یہی ڈرامائی اختتام (“twist ending”) ہر نسل کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ ہر کردار کی اپنی کہانی ہے، ہر مکالمہ تجسس کو بڑھاتا ہے۔
دی ماؤس ٹریپ کا عنوان شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے “ہیملیٹ” سے لیا گیا ہے، جہاں کہانی کا مرکزی کردار ایک ڈرامہ پلے کرتا ہے، جسے وہ ماؤس ٹریپ کا نام ہی دیتا ہے۔ یہ بھی دھوکا دہی اور چالاکی سے بھرا ہوا ہے، جیسے اگاتھا کا اندازِ تحریر۔
جن لوگوں نے شیکسپئر کا مشہور زمانہ ڈرامہ ہیملٹ نہیں دیکھا یا اس کے بارے میں نہیں جانتے، انہیں بتاتا چلوں کہ یہ شہرہ آفاق برطانوی ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کا مشہور المیہ (tragedy) ڈرامہ ہے، جس میں شہزادہ ہیملٹ اپنے باپ (بادشاہ) کے قتل کا بدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ پرنس ہیملٹ کو شک ہوتا ہے کہ اس کے چچا کلاڈیس نے اس کے والد کو زہر دے کر مارا اور اب اس کی ماں سے شادی کرکے بادشاہ بن گیا ہے۔
ہیملٹ کو اپنے شک کو ثابت کرنے کے لیے ایک چال سوجھتی ہے۔ وہ اداکاروں کی ایک ٹیم کو بلاتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ وہ ایک مخصوص پرفارمنس کریں، ایسی کہانی جو بالکل اسی انداز میں ہو جیسا اس کے والد کا قتل ہوا تھا۔ ہیملٹ خود اس “اداکاری” کو ماؤس ٹریپ (چوہے کے لیے جال )کا نام دیتا ہے۔ ہیملٹ دراصل کلاڈیس (اپنے چچا) کو اس پرفارمنس کے ذریعے پکڑنا چاہتا ہے۔ جیسے چوہے کو پنیر سے جال میں پھنسایا جاتا ہے، ویسے ہی وہ اپنے چچا کو ضمیر کی چبھن سے بے نقاب کرنا چاہتا ہے۔
برسبیل تذکرہ بھارت میں مشہور ہدایت کار وشال بھردواج نے شیکسپیئر کے 3 مشہور ٹریجڈی ڈراموں پر 3 فلمیں بنائی ہیں، مقبول (میکبتھ)، اوم کارہ(اوتھیلو) اور حیدر (ہیملٹ) پر بنی۔ حیدر میں شاہد کپور نے شہزادہ کا کردار ادا کیا، کے کے مینن اس کا چچا (باپ کا قاتل) جبکہ اداکارہ تبو نے اس کی ماں کا کردار ادا کیا۔ اس میں ہیملٹ کی کہانی کو مقامی طور پر فلمایا اور کشمیری تحریک مزاحمت کی جھلک بھی دکھائی دی۔
لندن کے ویسٹ اینڈ تھیٹرز میں صرف ماؤس ٹریپ ہی نہیں بلکہ کئی مشہور ڈرامے دکھائے جاتے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح جاتے ہیں۔ وکٹر ہیوگو کا مشہور ڈرامہ لیز میزرایبل(Misérables Les)، فینٹم آف دا اوپرا اور میٹلڈا وغیرہ شامل ہیں۔ ویسے ہی بتاتا چلوں کہ لیز میزرایبل کا اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ ویسٹ اینڈ تھیٹرز کا سب سے بڑا ایوارڈ اولیور ایوارڈ سمجھا جاتا ہے۔ یہ مشہور برطانوی اداکار لارنس اولیور کی مناسبت سے ہے۔
ویسٹ اینڈ لندن کی طرح نیویارک کا براڈ وے تھیٹر بھی بہت مشہور ہے۔ براڈوے تھیٹرز میں کام کرنا ہر اسٹیج آرٹسٹ کی شدید ترین خواہش ہوتی ہے۔ براڈوے (Broadway) دراصل نیو یارک سٹی کے مین ہیٹن (Manhattan) علاقے میں واقع ہے۔ اصطلاحی طور پر “براڈوے تھیٹر” اُن تھیٹروں کو کہتے ہیں جو نیو یارک کے براڈوے ایونیو کے آس پاس واقع ہوں، جن کی نشستوں کی تعداد 500 یا زیادہ ہو۔ صرف وہی تھیٹرز “براڈوے تھیٹر” کہلاتے ہیں جن میں میگا ڈرامے دکھائے جائیں۔ 41 ایسے براڈوے تھیٹرز ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ براڈوے کے ڈراموں پر لاکھوں ڈالر خرچ آتا ہے اور یہ بے تحاشا کماتے بھی ہیں۔ لائن کنگ اور ہملٹن جیسے مشہور ڈرامے سالانہ سو ملین ڈالر تک کمائی دیتے ہیں۔
براڈوے شوز کے لیے ٹونی ایوارڈز سب سے بڑا اعزاز ہیں، بالکل جیسے فلموں کے لیے آسکر۔ تھیٹر اداکاروں کا خواب ہوتا ہے کہ وہ براڈوے اسٹیج پر قدم رکھیں۔ یہ کریئر کا نقطہ عروج سمجھا جاتا ہے۔ براڈوے دنیا کا سب سے بڑا تھیٹر مرکز ہے۔
انگلینڈ اور امریکا جیسا نہ سہی، مگر پیرس، فرانس میں بھی اہم تھیٹرز موجود ہیں جہاں کلاسیکی اور کلچرل اہمیت کے فرانسیسی ڈرامے اسٹیج ہوتے ہیں۔ جرمنی میں برلن، میونخ ، فرینکفرٹ وغیرہ میں اہم تھیٹر موجود ہیں، جرمن ڈرامہ رائٹر بریخت کے ڈراموں کے لیے الگ سے ایک خاص کیٹیگری ہے جبکہ کلاسیکی جرمن ادب پر ڈراموں کے ساتھ جدید تجرباتی تھیٹرز بھی چلتے ہیں۔
جرمنی میں تھیٹرز کو حکومت کی جانب سے باقاعدہ امداد ملتی ہے۔ جاپان میں 7 سو سال پرانا روحانی تھیٹر نوہ (Noh) موجود ہے جبکہ رنگین میوزیکل ڈراموں کے لیے کابوکی تھیٹر اور ویسٹرن انداز کے ڈرامے شنگیکی تھیٹرز میں دکھائے جاتے ہیں۔ کینیڈا، چین، روس اور دیگر ممالک کی اپنی خاص تہذیب کے مطابق وہاں اسٹیج ڈرامے ہوتے ہیں۔ تھیٹر کی جداگانہ شناخت ہے۔ بھارت میں گو یورپ اور امریکا جیسا منظم نہ سہی، مگر وہاں آرٹ اور سنجیدہ تھیٹر کے ساتھ کمرشل اسٹیج ڈرامے بھی ہوتے ہیں۔
تفصیل پڑھنے کے بعد آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پاکستان کا کیا منظرنامہ ہے؟ پاکستان میں تھیٹر کو حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملتی، یہاں پر کمرشل تھیٹر ہے جہاں فحش جگتوں، تھرڈ کلاس مجروں اور گھٹیا رقص کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ وہاں فیملیز کا جانا محال ہے، اکثر یہ اسٹیج ڈرامے آدھی رات کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں۔
ایک زمانے میں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ لاہور میں سنجیدہ تھیٹر ہوتا تھا، میں نے لاہور آمد کے بعد ابتدائی برسوں میں اجوکا کے ڈرامے وہیں دیکھے۔ برسوں پہلے وہ ختم ہوگیا۔ اجوکا والے سال بھر میں ایک آدھ بار الحمرا میں اپنا تھیٹر فیسٹول کر لیتے ہیں، 3 دنوں میں 3 ڈرامے اور کوشش ہوتی ہے کہ کم ہی لوگوں کو اس کا پتا چلے۔ اجوکا کے ڈراموں میں ایک خاص ایجنڈا کارفرما ہوتا ہے، مگر پھر بھی غنیمت ہے کہ کچھ نہ کچھ سنجیدہ کام تو ہے۔
لاہور میں صحافت شروع کی تو نائن الیون سے پہلے سردیوں میں ایک شاندار عالمی تھیٹر فیسٹول ہوتا تھا جس میں دنیا بھر سے مختلف ڈرامہ ٹیمیں آتی تھیں۔ قذافی اسٹیڈیم کے کلچرل کمپلیکس میں یہ تین چار روزہ میلہ ہوتا تھا، کیا شاندار پرفارمنسز ہم نے وہاں دیکھیں۔ رفیع پیر والے (عثمان پیرزادہ، عمران پیرزادہ وغیرہ) اس کے میزبان اور آرگنائزر ہوتے۔ نائن الیون کے بعد دہشتگردی کی ایسی لہر آئی کہ کئی برس تک سب کچھ تلپٹ ہوگیا۔ اب بہت کچھ نارمل ہوگیا، الحمرا میں فیض میلہ اور ادبی کانفرنسیں بھی ہو رہی ہیں، مگر رفیع پیر والوں کی شاید ترجیحات بدل چکی ہیں۔
میں ماوس ٹریپ اور پھر نیویارک براڈوے تھیٹر اور دیگر ممالک کے تھیٹر کی تفصیل پڑھتے ہوئے قلق سے سوچتا رہا کہ کسی نے پاکستان کے ادبی، ثقافتی ورثے کو اسٹیج پر دکھانے کے بارے میں کیوں نہیں سوچا؟ ہمارے پاس علاقائی ادب وثقافت میں ایسا شاندار ورثہ ہے جسے دکھانا چاہیے۔ اردو تھیٹر میں آغا حشر کاشمیری کی روایت موجود ہے، جسے آگے بڑھانا چاہیے تھا۔ اس کے بارے میں مگر کون سوچے، کون کوشش کرے؟
ہمارا تھیٹر ختم ہوگیا، فلم انڈسٹری دم توڑنے کو ہے، ٹی وی ڈرامہ اپنا بہترین دور گزار کر نمائشی، سطحی اور ہلکے ڈراموں تک محیط ہوگیا ہے۔ سماج جب فکری طور پر دم توڑ جائے، تب شاید ایسا ہی ہوتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اب ان سب کچھ کا نوحہ بھی کوئی نہیں کہتا۔ زوال کی ایک انتہائی شکل یہ ہے کہ اپنی تباہی کا احساس بھی ختم ہوجائے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔